إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
بے شک وہ لوگ جو تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے، پھر جس نے عہد توڑا تو در حقیقت وہ اپنی ہی جان پر عہد توڑتا ہے اور جس نے وہ بات پوری کی جس پر اس نے اللہ سے عہد کیا تھا تو وہ اسے جلدہی بہت بڑا اجر دے گا۔
[١٠] بیعت رضوان خون پر بیعت تھی :۔ یہ بیعت اس شرط پر لی جارہی تھی کہ اگر شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کی خبر درست ہو تو مسلمان ان کا قصاص لینے کے لئے جانیں لڑا دیں گے اور جب تک یہ مقصد پورا نہ ہوجائے ان میں کوئی زندہ واپس نہ جائے گا۔ اس کی بیعت کی صورت یہ تھی کہ بیعت کرنے والا نیچے ہاتھ رکھتا تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ہاتھ کے اوپر ہاتھ رکھ کر عہد لیتے تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کی صورت :۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر چونکہ یقینی نہ تھی بس افواہ ہی تھی اور ان کے زندہ سلامت ہونے کا امکان موجود تھا۔ لہٰذا آپ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بھی خود ہی بیعت کی۔ اپنا ہی ایک ہاتھ نیچے رکھا اور دوسرا اوپر رکھ کر بیعت مکمل کی۔ گویا آپ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر اتنا اعتماد تھا کہ اگر وہ زندہ ہیں تو یقیناً ایسی بیعت سے کبھی پیچھے نہیں رہ سکتے۔ یہ بیعت دراصل اللہ ہی سے عہد تھا :۔ نیز اللہ تعالیٰ نے بیعت کرنے والوں سے فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ تمہارے ہاتھ کے اوپر دوسرا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا ہاتھ ہے جس سے تم عہد کر رہے ہو۔ بلکہ یہ اللہ کے نائب رسول کا ہاتھ ہے۔ جو اس وقت اپنی ذات کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کے نائب ہونے کی حیثیت سے تم سے بیعت لے رہا ہے۔ بیعت کی مختلف صورتیں :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کئی بار بیعت لی ہے۔ سب سے پہلی بیعت بیعت عقبہ تھی جس میں اہل مدینہ نے یہ اقرار کیا تھا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لائیں تو وہ ہر تنگی ترشی میں ان کی مدد کرینگے اور ان کی جان کی حفاظت کریں گے۔ یہاں جہاد یا خون پر بیعت کا ذکر ہے اور بعض مقامات پر بھلائی کے کاموں کے کرنے اور برے کاموں سے اجتناب کا ذکر بھی قرآن میں موجود ہے اور ایسی بیعت آپ مردوں سے بھی لیتے تھے اور عورتوں سے بھی۔ امیر کی سمع واطاعت کی بیعت لازم ہے خواہ یہ بالواسطہ ہو :۔ یہاں ایک عام سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بیعت ہر شخص کے لئے ضروری ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر ایک کے لئے ضروری صرف وہ بیعت ہے جو امیرالمومنین سے سمع و طاعت کے اصول پر کی جاتی ہے اور یہ بالواسطہ بھی ہوسکتی ہے۔ اور اس سے مقصود صرف مسلمانوں کی جمعیت اور سیاسی قوت کو مضبوط بنانا اور مشترکہ طور پر اللہ کے دین کو سر بلند کرنا اور رکھنا ہوتا ہے۔ پیروں فقیروں کی بیعت ؟:۔ رہی وہ بیعت جو پیرو مشائخ نے لازمی بنا رکھی ہے۔ تو یہ ہرگز واجب نہیں البتہ مشروع ضرور ہے وہ بھی اس شرط کے ساتھ پیر یا شیخ خود پوری طرح شریعت کا پابند ہو۔ اور اگر پیر صاحب خود ہی شریعت کے پابند نہ ہوں تو ان کی بیعت جائز نہ ہوگی بلکہ عذاب کا باعث بن جائے گی۔