وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۖ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
اور (تاکہ) ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے بارے میں گمان کرنے والے ہیں، برا گمان، انھی پر بری گردش ہے اور اللہ ان پر غصے ہوا اور اس نے ان پر لعنت کی اور ان کے لیے جہنم تیار کی اور وہ لوٹنے کی بری جگہ ہے۔
[٦] منافقوں کا گمان کہ اب مسلمان کبھی واپس نہ آسکیں گے :۔ غزوہ حدیبیہ میں کوئی منافق شریک نہ ہوا تھا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ اس غزوہ میں اموال غنیمت کا کوئی قصہ ہی نہ تھا۔ اور مسلمان محض رضائے الٰہی کے لئے عمرہ کرنے جارہے تھے تو کافروں نے مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر روک دیا اور حالات کشیدہ ہوتے گئے تو یہ خبریں مدینہ میں پہنچ رہی تھیں۔ چنانچہ منافقوں نے خوب بغلیں بجانا شروع کردیں کہ پہلے تو قریش مکہ یہاں اپنے وطن سے بہت دور آکر لڑائی کرتے تھے لیکن اب مسلمان خود ان کے گھر پہنچ گئے ہیں۔ اب یہ وہاں سے بچ کر کبھی نہ آسکیں گے۔ اس صلح سے اور مسلمانوں کے بخیر و عافیت واپس مدینہ پہنچ جانے سے منافقوں کی دل کی جلن میں مزید اضافہ ہوگیا اور ان کے درپردہ کئی منصوبوں پر پانی پھر گیا یہی ان کے لئے کافی سزا تھی۔ دوسری طرف مشرکین مکہ اس بات پر بغلیں بجا رہے تھے کہ وہ مسلمانوں سے اپنی من مانی شرائط ان تسلیم کروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ حالانکہ بعد میں یہی شرائط ان کی جڑ کاٹ دینے والی ثابت ہوئیں۔ سب سے توہین آمیز شرط یہ تھی کہ اگر مکہ سے کوئی مسلمان اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مدینہ چلا جائے تو مسلمان اسے واپس کردیں گے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان مکہ آجائے تو قریش مکہ اسے مسلمانوں کو واپس نہیں کریں گے۔ اس شرط کا جو نتیجہ نکلا اس کا حال ہم ابتدا میں لکھ چکے ہیں۔ دوسری شرط یہ تھی کہ قبائل عرب میں سے جو کوئی فریقین میں سے کسی کا حلیف بننا چاہے بن سکتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں بنو خزاعہ مسلمانوں کے حلیف بن گئے اور بنو بکر قریش مکہ کے۔ بنو خزاعہ اور بنوبکر میں جھگڑا ہوگیا تو قریش مکہ نے صلح نامہ حدیبیہ کے علی الرغم بدعہدی کرکے اپنے حلیف بنو بکر کی مدد کی اور بنو خزاغہ پر زیادتی کی۔ چنانچہ مشرکین مکہ کی یہی بدعہدی فتح مکہ، ان پر وبال اور ان کے زوال کا سبب بن گئی۔ تیسری شرط یہ تھی کہ فریقین دس سال تک جنگ نہیں کریں گے۔ اس شرط کا حشر یہ ہوا کہ جب بنو خزاعہ نے جا کر مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کی اور قریش مکہ کی زیادتی اور بدعہدی کا ذکر کیا تو اس معاہدہ کو برقرار رکھنے کے لئے خود ابو سفیان کو مدینہ جاکر منتیں کرنا پڑیں۔ پھر بھی وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوا۔ اور چوتھی شرط یہ تھی کہ مسلمان اگلے سال آکر عمرہ کریں گے اور تین دن کے لئے مشرکین مکہ اس شہر کو خالی کردیں گے۔ اس شرط پر ٹھیک طور پر عمل درآمد ہوا۔ اور یہ مسلمانوں کی انتہائی دیانتداری اور شرافت تھی کہ وہ اپنے عہد کو ملحوظ رکھتے ہوئے عمرہ کرکے تین دن کے بعد واپس چلے گئے۔ مسلمانوں کے بجائے کوئی اور ہوتا تو جس طرح شہر خالی پڑا تھا فوراً اس پر قبضہ کرلیتا۔ اور یہ خطرہ مشرکین مکہ کو بھی محسوس ہونے لگا تھا۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے منافقوں اور مشرکوں کی آرزوؤں اور تدبیروں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ ان کی تدبیریں انہی پر الٹ پڑیں۔ بعد میں انہیں جو عذاب دنیا میں دیکھنے پڑے یا آخرت میں ان سے دو چار ہونا پڑے گا۔ وہ مستزاد ہیں۔