إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا
بے شک ہم نے تجھے فتح دی، ایک کھلی فتح۔
[١] آپ کو بیت اللہ کے طواف کا خوب میں آنا :۔ جنگ احزاب کے بعد قریش کی مسلمانوں پر بالا دستی کا تصور ختم ہوچکا تھا تاہم ابھی تک بیت اللہ پر قریش کا ہی قبضہ تھا۔ مسلمان جب سے ہجرت کرکے مدینہ گئے تھے ان میں سے کسی نے حج، عمرہ یا طواف کعبہ نہیں کیا تھا جس کے لئے ان کے دل ترستے رہتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب آیا کہ آپ بہت سے مسلمانوں کی معیت میں بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں۔ نبی کا خواب چونکہ وحی ہوتا ہے۔ ١٤٠٠ صحابہ کے ساتھ مکہ کو روانگی :۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا اعلان فرما دیا۔ چونکہ اس سفر سے جنگی مقاصد یا غنائم کا کوئی تعلق نہ تھا۔ لہٰذا آپ کی معیت صرف ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہی اختیار کی جو محض رضائے الٰہی کے لئے عمرہ کی نیت رکھتے تھے۔ جو صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے پر تیار ہوئے ان کی تعداد چودہ سو کے لگ بھگ تھی۔ کافروں کا روکنا اور آمادہ جنگ ہونا : اہل مکہ کو پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی اطلاع ہوچکی تھی اور ان کی یہ انتہائی کوشش تھی کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ کیونکہ اس میں وہ اپنی توہین سمجھتے تھے۔ دستور کے مطابق اہل مکہ کسی بھی طواف اور عمرہ کرنے والے کو نہیں روک سکتے تھے۔ پھر یہ مہینہ بھی ذیقعد کا تھا جن میں اہل عرب کے دستور کے مطابق لڑائی منع تھی۔ ان دونوں باتوں کے باوجود قریش مکہ مسلمانوں کا مکہ میں داخلہ روکنے کے لئے لڑائی پر آمادہ ہوگئے۔ چنانچہ خالد بن ولید ایک فوجی دستہ لے کر مقابلہ کے لئے نکل آئے۔ حدیبیہ کے مقام پر فروکشی :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ صورت حال معلوم ہوئی تو آپ سیدھی راہ میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے مکہ کے زیریں علاقہ حدیبیہ میں فروکش ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کو بہتیرا سمجھایا کہ ہم لڑنے کی غرض سے نہیں آئے فقط عمرہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور قربانی کے جانور بھی دکھائے لیکن انہیں مسلمانوں کا مکہ میں داخل ہونا بھی گوارا نہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے مسلمانوں کو واپس چلے جانے پر ہی اصرار کیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی افواہ اور بیعت رضوان :۔ اسی دوران فریقین کی طرف سے کئی سفارتیں بھی آئیں اور گئیں۔ مسلمانوں کی طرف سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر بھیجا گیا تو انہیں وہیں روک لیا گیا۔ اور افواہ یہ مشہور ہوگئی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیئے گئے۔ چنانچہ قصاص عثمان کے سلسلہ میں آپ نے ایک کیکر کے درخت کے نیچے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے خون پر بیعت لی۔ جو بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت :۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اہل مکہ کے لئے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کوئی زیادہ کوئی قابل احترام ہوتا تو آپ سفارت کے لئے اسے بھیجتے یہ بیعت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی غیر موجودگی میں ہوئی۔ لہٰذا آپ نے یوں کیا کہ اپنے دائیں ہاتھ سے اشارہ کیا اور فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اس کو بائیں ہاتھ پر مار کر فرمایا کہ یہ عثمان کی بیعت ہے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب مناقب عثمان بن عفان۔۔) بعد میں معلوم ہوا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر غلط تھی۔ سفارتوں کے تبادلے اور صلح حدیبیہ :۔ دو تین دفعہ سفارتوں کے تبادلہ کے بعد با لآخر صلح کی شرائط پر سمجھوتہ ہوگیا۔ یہ شرائط بظاہر مسلمانوں کے لئے توہین آمیز تھیں اور بیعت رضوان کے بعد بالخصوص ایسی شرائط پر رضا مند بھی نہیں ہوسکتے تھے۔ اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شرائط کو منظور فرما لیا اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس صلح کو فتح مبین قرار دیا۔ صلح کی شرائط یہ تھیں۔ ١۔ آئندہ دس سال تک مسلمان اور قریش ایک دوسرے پر چڑھائی نہ کریں گے اور صلح و آشتی سے رہیں گے۔ ٢۔ قبائل کو عام اجازت ہے کہ وہ جس فریق کے حلیف بننا چاہیں بن سکتے ہیں۔ ٣۔ اگر مکہ سے کوئی مسلمان اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مدینہ پہنچ جائے تو مسلمان اسے واپس کردیں گے لیکن اگر کوئی مسلمان مکہ آجائے تو وہ واپس نہ کیا جائے گا۔ ٤۔ مسلمان اس دفعہ عمرہ کئے بغیر واپس چلے جائیں۔ آئندہ سال وہ تلواریں نیام میں کئے ہوئے آئیں۔ تین دن تک ان کے لئے شہر خالی کردیا جائے گا اور انہیں مکہ میں رہنے اور عمرہ کرنے کی اجازت ہوگی۔ شرائط قبول کرنے کی وجوہ :۔ مسلمانوں کو جب یہ سورۃ سنائی گئی تو وہ خود حیران ہو کر ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ ایسی توہین آمیز صلح فتح مبین کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ بحث بڑی تفصیل طلب ہے جس کا یہاں موقع نہیں۔ ہم یہاں ایسی وجوہ بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جن کی بنا پر آپ نے ایسی شرائط کو مسلمانوں سے مشورہ کئے بغیر بلکہ ان کی مرضی کے علی الرغم منظور فرما لیا تھا۔ البتہ یہ بات ملحوظ رکھنا چاہئے کہ یہ سب وحی الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق ہوا تھا۔ وہ وجوہ یہ ہیں : ١۔ جب سے آپ مدینہ گئے تھے آپ کے دشمنوں میں کئی گناہ اضافہ ہوگیا تھا اور مسلسل چھ سال سے ہنگامی حالات میں زندگی گزار رہے تھے۔ ان دشمنوں میں سب سے بڑے دشمن یہی قریش تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ان کی طرف سے اطمینان نصیب ہو تاکہ دوسرے دشمنوں سے بطریق احسن نمٹا جاسکے۔ چنانچہ آپ نے یہاں سے واپسی پر سب سے پہلے بنونضیر کی سرکوبی کی اور خیبر فتح ہوا۔ ٢۔ انہی ہنگامی حالات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے تبلیغی پروگرام مؤخر ہوتے جارہے تھے۔ چنانچہ اس صلح کے بعد آپ نے آس پاس کے بادشاہوں کے نام تبلیغی خطوط ارسال فرمائے۔ ٣۔ اس صلح نے تمام عرب پر یہ بات ثابت کردی کہ مسلمان فی الحقیقت امن پسند قوم ہے جو جنگ سے حتی الامکان گریز کرتی ہے اور مقابلہ کی قدرت رکھنے کے باوجود صلح و آشتی کو ترجیح دیتی ہے۔ اسی تاثر کے نتیجہ میں اس صلح کے بعد بعض بڑے بڑے سردار از خود اسلام لے آئے مثلاً خالد بن ولید سیف اللہ اور عمرو بن عاص فاتح مصر وغیرہم۔ ٤۔ جنگ کی صورت میں مکہ میں موجود مسلمانوں کی تباہی یقینی تھی۔ قرآن کریم نے یہ ایک ایسی وجہ بیان فرمائی جس کا مسلمانوں کو خیال تک نہ آیا تھا۔ جانوروں کی قربانی :۔ اس معاہدہ صلح کی تحریر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنی اپنی قربانیاں ذبح کرنے کا حکم دیا۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو اس توہین آمیز صلح کا کچھ ایسا غم لاحق ہوگیا تھا کہ آپ کے اس حکم پر کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ اٹھا۔ (شاید وہ اسی انتظار میں ہوں کہ ابھی اللہ کی طرف سے کوئی اور حکم آجائے گا) اس سفر میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جب یہ صورت حال بیان کی تو انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ آپ اپنی قربانی ذبح کردیں پھر صحابہ اپنی قربانیاں خود بخود ذبح کردیں گے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی ذبح کی۔ بال منڈائے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کی اتباع میں قربانیاں کیں۔ بال منڈائے اور احرام کھول کر واپس مدینہ آگئے۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ) عمرہ قضا :۔ پھر اگلے سال انہیں مسلمانوں نے عمرہ قضا ادا کیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب عمرۃ القضاء) اب ہم یہاں چند احادیث درج کرتے ہیں جن سے اس سورۃ کا شان نزول اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالخصوص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اضطراب کا منظر سامنے آتا ہے : ١۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ ﴿ اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ﴾ سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ شرائط صلح پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بے قراری :۔ زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر (حدیبیہ) میں تھے اور سیدنا عمررضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ رات کا وقت تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے کچھ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر (تیسری بار) پوچھا تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا۔ آخر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے تئیں کہنے لگے : ’’تیری ماں تجھ پر روئے تو نے تین بار عاجزی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار بھی جواب نہ دیا‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ پھر میں نے اپنے اونٹ کو ایڑ لگائی اور لوگوں سے آگے نکل گیا۔ مجھے خطرہ تھا کہ اب میرے بارے میں قرآن نازل ہوگا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو مجھے ہی بلا رہا تھا۔ میں ڈر گیا کہ شاید میرے بارے میں قرآن اترا ہے۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’آج رات مجھ پر ایک سورت اتری ہے جو مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ پسند ہے جن تک سورج کی روشنی پہنچتی ہے‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت پڑھی۔ (حوالہ ایضاً) ٣۔ سیدنا سہل بن حنیف کہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے۔ جب آپ نے مشرکین مکہ سے صلح کی۔ اگر ہم لڑنا مناسب سمجھتے تو لڑ سکتے تھے۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : کیا ہم حق پر اور یہ (مشرک) باطل پر نہیں؟ کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول دوزخ میں نہ ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کیوں نہیں‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : تو پھر ہم اپنے دین کو کیوں ذلیل کریں؟ اور ایسے ہی مدینہ کو چلے جائیں۔ جب تک کہ اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہ کردے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’خطاب کے بیٹے! رسول میں ہوں (تم نہیں) اللہ مجھے کبھی ضائع نہ کرے گا‘‘ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ غصے کی حالت میں لوٹ گئے۔ مگر قرار نہ آیا تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہنے لگے۔ ’’کیا ہم حق پر اور یہ مشرک باطل پر نہیں؟‘‘ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’خطاب کے بیٹے! اللہ کے رسول وہ ہیں (تم نہیں) اور اللہ انہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا‘‘ اس وقت سورۃ فتح نازل ہوئی۔ (حوالہ ایضاً) ٤۔ سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس دن مکہ فتح ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سورت دہرا دہرا کر خوش الحانی سے پڑھ رہے تھے۔ (حوالہ ایضاً) صلح حدیبیہ کی توہین آمیز شرائط سے خیر کے پہلو کیسے پیدا ہوئے اور ابو جندل کی حالت زار اور فریاد :۔ صلح حدیبیہ کی انہی توہین آمیز شرائط سے اللہ تعالیٰ نے خیر کے بہت سے پہلو پیدا کردیئے۔ مکہ میں رکھے جانے والے مسلمانوں نے جب مکہ میں تبلیغ شروع کردی اور بعض لوگ اسلام بھی لے آئے تو یہی بات قریش مکہ کے لئے سوہان روح بن گئی، اور مسلمانوں کے ہاں مدینہ سے واپس کئے جانے والے مسلمانوں نے تجارتی شاہراہ پر اپنی الگ بستی بسا کر قریش کے تحارتی قافلوں کا ناک میں دم کردیا۔ ان میں ایک ابو جندل رضی اللہ عنہ تھے۔ قریش مکہ کے تیسرے اور آخری سفیر سہیل بن عمرو کے بیٹے تھے اور مسلمان ہوچکے تھے جب شرائط صلح طے پارہی تھیں لیکن تاہنوز ضبط تحریر میں نہ آئی تھیں اس وقت یہ اہل مکہ کی قید سے بھاگ کر حدیبیہ میں مسلمانوں کے پاس پہنچ گئے اور انہیں اپنے زخم دکھا دکھا کر التجا کی کہ اب انہیں کفار کے حوالہ نہ کیا جائے۔ مسلمان ابو جندل رضی اللہ عنہ کو پناہ دینے کے حق میں تھے کیونکہ شرائط تاحال ضبط تحریر میں نہ آئی تھیں مگر ابو جندل کا باپ سہیل اس بات پر اڑ گیا کہ اگر ابو جندل کو واپس نہ کیا گیا تو صلح نہیں ہوسکتی آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جندل کو صبر کی تلقین فرمائی اور اسے واپس کردیا۔ اسی طرح سیدنا ابو بصیر اسلام لاکر مدینہ پہنچے تو کفار نے دو آدمی مدینہ بھیج دیئے کہ وہ انہیں واپس مکہ لائیں۔ آپ نے ابو بصیر کو ان کے ہمراہ کردیا۔ ابو بصیررضی اللہ عنہ نے راہ میں موقع پر ایک کو قتل کردیا اور دوسرا فرار ہو کر مدینہ آگیا اور رسول اللہ کو یہ ماجرا سنایا اتنے میں پیچھے پیچھے ابو بصیر بھی مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے مجھے ان کے ہمراہ بھیج کر اپنا ذمہ پورا کردیا۔ اب تو اللہ نے مجھے ان سے نجات دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جنگ کی آگ نہ بھڑکاؤ‘‘ سیدنا ابو بصیر کو جب معلوم ہوا کہ آپ انہیں مدینہ نہیں رہنے دیں گے تو وہاں سے چل کر سمندر کے کنارے پر آکر مقیم ہوگئے۔ بعد ازاں ابو جندل بھی یہاں پہنچ گئے اور دوسرے نومسلم بھی مدینہ کے بجائے ادھر کا رخ کرنے لگے۔ ان لوگوں نے قریش کو اس قدر تنگ کیا کہ انہوں نے مجبور ہو کر اس شرط کو کالعدم کردیا اور اجازت دے دی کہ جو شخص مسلمان ہو کر مدینہ جانا چاہے وہ جاسکتا ہے۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ابو بصیر کو ان کاموں سے منع کریں اور جو شخص مسلمان ہو کر مدینہ جانا چاہے وہ جاسکتا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بصیر کو لوٹ مار کرنے سے منع فرما دیا۔ (کتاب الشروط نیز کتاب المغازی وغیرہ)