سورة محمد - آیت 35

فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پس نہ کمزور بنو اور نہ صلح کی طرف بلاؤ اور تم ہی سب سے اونچے ہو اور اللہ تمھارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز تم سے تمھارے اعمال کم نہ کرے گا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٩] دشمن سے صلح یا سمجھوتہ کی درخواست نہ کی جائے :۔ یعنی جب تم دشمن سے بھڑ جاؤ تو پھر سستی کا ہرگز مظاہرہ نہ کرو بلکہ سر دھڑ کی بازی لگادو۔ اور نہ ہی کافروں سے صلح اور سمجھوتہ کی درخواست کرو جس سے تمہاری کمزوری ان پر عیاں ہوجائے اور وہ تو تمہیں مزید دباتے چلے جائیں گے۔ واضح رہے کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں۔ جب مدینہ کی ریاست نئی نئی وجود میں آئی تھی۔ ایک سو کے لگ بھگ مہاجر اور کچھ انصار تھے اور ان کے جنگی جوانوں کی تعداد ایک ہزار تک بھی بمشکل پہنچی تھی۔ سامان جنگ کی فراوانی تو درکنار ان کی معاشی حالت بھی کچھ اچھی نہ تھی۔ دوسری طرف صرف قریش مکہ ہی نہیں سارا عرب ہی مسلمانوں کی مخالفت پر اتر آیا تھا اور اس ریاست کو اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردینا چاہتا تھا۔ ان حالات میں یہ ہدایت دی گئی کہ میدان جنگ میں نہ اپنی کمزوری دکھاؤ اور نہ ہی اپنے آپ کو کمزور سمجھتے ہوئے دشمن سے صلح کی درخواست کرو۔ ہاں اگر دشمن سے اپنی طاقت کا لوہا منوا لو تو وہ خود مسلمانوں سے صلح کی درخواست کریں تو اس صورت میں آپ ان کی صلح کی درخواست کو قبول فرما لیجئے۔ جیسا کہ سورۃ انفال کی آیت نمبر ٦١ میں اس کی صراحت موجود ہے۔ [٤٠] غلبہ سے مراد سیاسی غلبہ ہی نہیں بلکہ دلیل وحجت کا غلبہ بھی ہے :۔ اگر تم سستی نہ دکھاؤ گے اور پامردی اور استقلال سے جہاد کرو گے تو یقیناً تم ہی غالب رہو گے کیونکہ اس صورت میں اللہ تمہاری مدد پر موجود ہے۔ تم نے جہاد کے سلسلہ میں جو خرچ کیا ہوگا یا جو محنت و مشقت اٹھائی ہوگی اللہ اس کا تمہیں پورا پورا اجر عطا کر دے گا۔ اور یہ جو فرمایا کہ تم ہی غالب رہو گے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم ہر جنگ میں اور ہر حال میں غالب ہی رہو گے۔ جیسا کہ مسلمانوں کو جنگ احد میں اور جنگ حنین میں ان کی اپنی ہی غلطی کی وجہ سے عارضی طور پر شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بالآخر تم ہی غالب رہو گے۔ چنانچہ اللہ نے مسلمانوں سے اپنا یہ وعدہ پورا کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی سارے عرب میں کفر و شرک کا زور ختم ہوگیا اور مسلمان اور اسلام ہی غالب آئے اور بعض علماء کہتے ہیں کہ غلبہ سے مراد ضروری نہیں کہ سیاسی غلبہ ہی لیا جائے۔ علمی غلبہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔ یعنی دلیل و حجت کے لحاظ سے کفر کے تمام مذاہب پر غالب رہو گے اور مسلمان اللہ کے فضل سے آج تک دلیل و حجت کے میدان میں کسی دوسرے مذہب والے سے مغلوب نہیں ہوئے۔ تاہم پہلا مطلب ہی ربط مضمون سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔