سورة آل عمران - آیت 167

وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور تاکہ وہ ان لوگوں کو جان لے جنھوں نے منافقت کی اور جن سے کہا گیا آؤ اللہ کے راستے میں لڑو، یا مدافعت کرو تو انھوں نے کہا اگر ہم کوئی لڑائی معلوم کرتے تو ضرور تمھارے ساتھ چلتے۔ وہ اس دن اپنے ایمان (کے قریب ہونے) کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے، اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے جو وہ چھپاتے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٦٣] اللہ کو تو مومنوں اور منافقوں کی صورتحال کا پہلے ہی علم تھا۔ اس قسم کی آیات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی صورت حال پیدا کردے جس سے دوسروں کو ان باتوں کا علم ہوجائے۔ چنانچہ اس شکست میں بہت سے لوگوں کے پول کھل گئے اور جو شخص ایمان کے جس درجہ پر تھا نتھر کر سب کے سامنے آگیا۔ [١٦٤] منافقوں کا عذرلنگ :۔ جب عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں سمیت واپس جانے لگا تو اسے مسلمانوں نے سمجھایا کہ آج مشکل پڑنے پر چھوڑ کر جارہے ہو۔ اگر تم لڑنا نہیں چاہتے تو کم از کم دفاع ہی کرو۔ دفاع کے یہاں دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کے لشکر میں شامل رہو۔ واپس نہ جاؤ۔ تاکہ مجموعی تعداد سے دشمن کسی حد تک مرعوب رہے اور دوسرے یہ کہ جاکر شہر مدینہ کا دفاع کرو اور مسلمانوں کے گھروں کی حفاظت کرو۔ [١٦٥] عبداللہ بن ابی نے مسلمانوں کو جو جواب دیا۔ اس کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لڑائی ہوگی ہی نہیں۔ پھر تمہارے ساتھ رہنے کا کیا فائدہ۔ ہمیں واپس ہی جانا چاہئے۔ یہ جواب تو اس لیے غلط تھا کہ بھلا جو کافر اتنی دور دراز کی مسافت سے لڑنے آئے تھے اور ان کے دلوں میں بدر کے انتقام کی آگ بھی سلگ رہی تھی، وہ بھلا لڑے بغیر واپس جاسکتے تھے وہ تو آئے ہی اس نیت سے تھے کہ مسلمانوں کا کچومر نکال کے رکھ دیں پھر وہ کیوں نہ لڑتے؟ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم تو فنون جنگ سے واقف ہی نہیں، پھر تمہارا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں؟ یہ دراصل طنزیہ جواب تھا کہ جب ہمارے مشورہ کو درخوراعتناء سمجھا ہی نہیں گیا اور اس کے بجائے چند پرجوش نوجوانوں کے مشورہ کو ترجیح دی گئی ہے کہ باہر کھلے میدان میں لڑنا چاہئے تو پھر وہی لوگ تم لوگوں کا ساتھ دیں گے ہم کیسے دے سکتے ہیں۔ فنون جنگ کو جاننے والے وہ لوگ ہوئے ہم تو نہ ہوئے۔ [١٦٦] یعنی ان منافقوں کے دل میں یہ بات تھی کہ مسلمانوں کی اس تھوڑی سی بے سروسامان جماعت کی شکست یقینی ہے۔ پھر ہم کیوں ان کے ساتھ ذلیل ہوں اور مارے جائیں بلکہ ان کی اصل خوشی ہی اس بات میں تھی کہ مسلمان تباہ و برباد ہوجائیں اور ہمیں بغلیں بجانے کا موقع ملے اور اور عبداللہ بن ابی کی کھوئی ہوئی ریاست پھر اسے مل جائے۔ [١٦٧] یعنی ان کے دلوں میں تو اس طرح کی باتیں تھیں اور بظاہر انہوں نے یہ جواب دے دیا۔ کہ ہم لڑائی جانتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے۔ حالانکہ اللہ کو تو سب کچھ معلوم ہے جو انہوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھا ہے۔