وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ
اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور اس پر ایمان لائے جو محمد پر نازل کیا گیا اور وہی ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اس نے ان سے ان کی برائیاں دور کردیں اور ان کا حال درست کردیا۔
[٢۔ الف] آپ کی بعثت کے بعد سب کو آپ کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہے :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور قرآن پر ایمان لانے کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا۔ وجہ یہ ہے کہ مدینہ میں کچھ ایسے یہود موجود تھے جو ایمان بالغیب کی جملہ جزئیات پر ایمان رکھتے تھے اور نیک اعمال بھی بجا لاتے تھے۔ انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ اب سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر اور تورات پر ایمان لانا سود مند نہ ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ سابقہ تمام انبیاء کی شریعت علاقائی یا قومی بھی تھی اور عارضی بھی۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہاں کے لیے اور تاقیام قیامت رسول ہیں۔ اسی طرح قرآن بھی جملہ اہل عالم کے لیے ایک تاقیام قیامت ہدایت کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اب ایسے یہود کو بھی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پر ایمان لانا ہوگا۔ سیدنا عمر کا تورات کے اوراق پڑھنا :۔ اس مفہوم کی وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ ایک دفعہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ تورات کے چند اوراق لائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ کر پڑھنے لگے جوں جوں سیدنا عمر پڑھتے جاتے آپ کا چہرہ متغیر ہوتا جاتا تھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : تمہیں گم کرنے والیاں گم پائیں کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کو نہیں دیکھتے؟ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے جب آپ کے چہرہ کی طرف دیکھا تو کہنے لگے کہ ’’میں اللہ سے اور اس کے رسول کے غضب سے پناہ پکڑتا ہوں۔ ہم اللہ کے پروردگار ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں‘‘ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے۔ اگر آج خود موسیٰ علیہ السلام ظاہر ہوجائیں اور تم مجھ کو چھوڑ کر اس کی پیروی کرو تو سیدھی راہ سے گمراہ ہوجاؤ گے اور اگر سیدنا موسیٰ علیہ السلام آج زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو انہیں میری اتباع کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوتا‘‘ (دارمی بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنتہ۔ فصل ثالث) [٣] یعنی کافروں اور ان کی معاندانہ سرگرمیوں کے مقابلہ میں اللہ پر، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن پر ایمان لائے۔ اور نیک اعمال بجا لاتے رہے۔ کافروں کا ظلم و ستم سہتے رہے، صبر اور برداشت سے کام لیتے رہے۔ اللہ ان کی سابقہ کو تاہیاں اور قصور معاف فرمادے گا اور جن مشکلات سے اس وہ وقت دوچار ہیں ان سے انہیں نکال کر ان کے حالات کو بہتر بنا دے گا اور ان کی کوششیں بار آور ثابت ہوں گی۔