وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُونَا إِلَيْهِ ۚ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَٰذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ
اور ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، ان لوگوں سے کہا جو ایمان لائے اگر یہ کچھ بھی بہتر ہوتا تو یہ ہم سے پہلے اس کی طرف نہ آتے اور جب انھوں نے اس سے ہدایت نہیں پائی تو ضرور کہیں گے کہ یہ پرانا جھوٹ ہے۔
[١٥] یہود کی اپنے متعلق غلط فہمی :۔ بایں ہمہ وہ یہ بھی سمجھے بیٹھے ہیں کہ کسی چیز کے حق ہونے کا معیار ہماری ذات والا صفات ہے۔ حق وہی ہوسکتا ہے جسے ہم حق قرار دے دیں۔ پھر جب ہم ہی اسے حق نہیں سمجھتے تو چند کمزور درجہ کے لوگوں کے اس کو حق سمجھنے سے وہ چیز حق کیسے بن سکتی ہے۔ اگر یہ دین کوئی اچھی چیز ہوتی تو ہم جیسے عقلمند اور معزز لوگ ان لونڈی غلاموں سے پیچھے کیسے رہ جاتے؟ [١٦] جھوٹ تو وہ اس لیے کہتے تھے کہ وہ اپنی ذات کو ہی حق کا معیار سمجھتے تھے اور قرآن ان کے معیار کے خلاف تھا۔ اور پرانا اس لیے کہتے تھے کہ سابقہ انبیائے کرام کی تعلیم بھی بعینہٖ وہی کچھ تھی جو اس نبی آخرالزمان کی تھی۔ وہ اسے نیا جھوٹ کہہ ہی نہیں سکتے تھے اور نہ انہیں یہ کہنا گوارا تھا کہ یہ پرانا سچ ہے۔ کیونکہ ابتدا سے انبیائے کرام یہی سچی تعلیم دیتے رہے ہیں۔