سورة الأحقاف - آیت 7

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا حق کے بارے میں، جب وہ ان کے پاس آیا، کہتے ہیں یہ کھلا جادو ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨] کافر قرآن کو جادو کیوں کہتے تھے؟:۔ کفار مکہ کے قرآن کو صریح جادو کہنے کی دو وجوہ تھیں ایک یہ کہ اس کلام میں بلاکی تاثیر تھی جو بھی یہ کلام سنتا اس کے دل میں اتر جاتا تھا۔ کافر خود بھی قرآن کی اس تاثیر کے معترف اور اس سے متاثر ہوجاتے تھے۔ مگر چونکہ وہ خود اس کو نہ ماننے کا تہیہ کرچکے تھے اس لیے قرآن کی اس خوبی کو بھی برے انداز میں پیش کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ صریح جادو یا جادو کا کرشمہ یا جادو کا سا اثر رکھتا ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جادوگروں کا عموماً یہ کام ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان پھوٹ ڈال دیں یا رشتہ داروں کو آپس میں لڑا دیں۔ ادھر صورت حال یہ تھی کہ جو شخص اسلام لے آتا تھا۔ وہ اس کے مقابلہ میں اپنے کسی رشتہ دار کی پروا نہیں کرتا تھا۔ اس لحاط سے بھی کافر قرآن کو جادو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو گر کہہ دیتے تھے۔