وَإِذَا عَلِمَ مِنْ آيَاتِنَا شَيْئًا اتَّخَذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
اور جب وہ ہماری آیات میں سے کوئی چیز معلوم کرلیتا ہے تو اسے مذاق بنا لیتا ہے، یہی لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔
[١٠] مشرکین کن آیات کا تمسخر اڑاتے ہیں :۔ قریشی سردار نصیحت حاصل کرنے کے لیے تو قرآن کی ایک بھی آیت سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔ مگر ایسی آیات کی ٹوہ ضرور لگائے رکھتے تھے جن میں انہیں کوئی ایسا نکتہ ہاتھ آجائے کہ وہ آیات الٰہی کا مذاق اڑا سکیں۔ ان کا نشانہ تضحیک پہلے نمبر پر تو وہ آیات تھیں جن میں دوبارہ جی اٹھنے اور روز آخرت اور حشر و نشر کا ذکر ہوتا۔ سیدنا خباب بن ارت نے عاص بن وائل سہمی سے اپنی کچھ مزدوری لینا تھی۔ انہوں نے مزدوری کا مطالبہ کیا تو کہنے لگا : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین چھوڑ دو تو مزدوری مل جائے گی۔ سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’وہ تو میں تمہارے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک بھی نہیں چھوڑ سکتا‘‘ عاص کہنے لگا : اچھا پھر جب میں دوبارہ جی اٹھوں گا تو تمہارا حساب بیباق کردوں گا‘‘ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’اللہ نے ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی‘‘ تو کفار نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور کہنے لگے بتاؤ اب اس کی دیوانگی میں کیا کسر رہ گئی۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اہل دوزخ کا کھانا زقوم کا درخت ہوگا تو بھی کفار نے مذاق اڑانا شروع کردیا۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی کہ جہنم پر انیس داروغے مقرر ہیں۔ تو ایک پہلوان صاحب اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ’’اٹھارہ کو تو میں اکیلا سنبھال لوں گا، تم سب مل کر ایک کو بھی نہ سنبھال سکو گے‘‘ اور جب یہ آیت نازل ہوئی کہ مشرک اور ان کے معبود سب دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو عبداللہ بن الزِبعریٰ کہنے لگا : ’’پھر تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بھی جہنم میں جائیں گے۔ ان سے تو پھر ہمارے معبود ہی اچھے ہوئے‘‘ اور ایسی آیات اور بھی بہت ہیں اور کفار مکہ ایسی ہی آیات معلوم کرنے کے درپے رہتے تھے جن کا مذاق اڑایا جاسکے۔