سورة البقرة - آیت 37

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے، تو اس نے اس کی توبہ قبول کرلی، یقینا وہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٦] وہ کلمات یہ تھے آیت ﴿ قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرحمٰنا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ﴾(۲۳:۷)آدم و حوا دونوں کہنے لگے : ’’اے ہمارے پروردگار! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہیں اور اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں فرمائے گا تو ہم تو خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘ ان کلمات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے خود ہی سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٢٣ میں کردیا ہے۔ اس کے باوجود بعض واعظ حضرات اس آیت کی تشریح میں ایک موضوع حدیث بیان کیا کرتے ہیں یہ حدیث مرفوع بنا کر پیش کی جاتی ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : جب سیدنا آدم علیہ السلام جنت سے نکال کر دنیا میں بھیجے گئے تو ہر وقت روتے اور استغفار کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آسمان کی طرف دیکھا اور عرض کی : ’’اے باری تعالیٰ ! سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے مغفرت چاہتا ہوں۔ وحی نازل ہوئی کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیسے جانتے ہو؟ عرض کیا۔ جب آپ نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا تھا لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ تو میں سمجھ گیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچی کوئی ہستی نہیں ہے۔ جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ لکھ رکھا ہے۔‘‘ وحی نازل ہوئی کہ وہ خاتم النبیین ہیں۔ تمہاری اولاد میں سے ہیں۔ وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کیے جاتے۔ (ریاض السالکین ٣٠٢) اب دیکھئے اس میں مندرجہ بالا باتیں قابل غور ہیں : سیدنا آدم علیہ السلام کا وسیلہ پکڑنا :۔ ١۔ اس حدیث میں یہ ذکر کہیں نہیں آیا کہ پھر سیدنا آدم علیہ السلام کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے توبہ قبول ہوئی بھی یا نہیں؟ الٹا اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر سیدنا آدم علیہ السلام کو اور بھی مایوس کردیا کہ اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی نہ ہوتے، کسی سائل کو اگر ایسا جواب دیا جائے تو بتائیے اس کے دل پر کیا بیتتی ہے؟ موضوع حدیث کی عجمی ترکیب :۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے اس جواب کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے نام پر ایک موضوع حدیث گھڑی گئی یعنی یہ حدیث قدسی ہے اور اس کا متن یوں ہے : عن ابن عباس یقول اللّٰہ وبعزتی و جلالی لو لاک ماخلقت الدنیا ترجمہ :”ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم نہ ہوتے تو میں اس دنیا کو پیدا ہی نہ کرتا“ (ریاض السالکین ص ٢٤٤) اس قدسی موضوع حدیث کا مفہوم ایک دوسری روایت میں ان الفاظ میں ہے۔ لَولاَکَ لَمَا خَلَقْتُ الاَفْلاَ کَ ترجمہ : ”اگر تم نہ ہوتے تو میں کائنات کی کوئی بھی چیز پیدا نہ کرتا۔“(ریاض السالکین ص ١٠١) ان حدیثوں کو ابن الجوزی نے موضوع قرار دیا ہے۔ دیکھئے موضوعات ابن الجوزی جلد ١ ص ٢٨٩ نیز ان احادیث کے موضوع ہونے پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ لولاک کی ترکیب عربی نہیں بلکہ عجمی ہے۔ عربی قواعد کے مطابق لو لا انت آنا چاہئے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین غزوہ خندق کے دوران خندق کی مٹی ڈھوتے وقت یہ شعر گنگنا رہے تھے : اللھُمَّ لَوْ لاَ اَنْتَ مَا اھْتَدَیْتَنَا (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ خندق) گویا لولاک کی ترکیب ہی غلط ہے، جو اس کے موضوع ہونے پر دلیل ہے۔ ان موضوعات کا مقصد صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کی عظمت یا قدامت بیان کرنا نہیں بلکہ کچھ اور بھی مقاصد ہیں جو ان حضرات کے نزدیک بہت اہم ہیں مثلاً : ١۔ اللہ سے خواہ کتنے ہی برس رو رو کر مغفرت طلب کی جائے وہ اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک کسی کا وسیلہ نہ پکڑا جائے اور (٢) یہ وسیلہ اپنے نیک اعمال کا نہیں کسی بزرگ ہستی کا ہی ہوسکتا ہے۔ خواہ وہ ابھی تک وجود میں نہ آئی ہو یا خواہ اس دنیا میں موجود ہو یا اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہو۔ کاش سیدنا آدم علیہ السلام کو اتنی مدت رونے سے پہلے ہی یہ باتیں معلوم ہوجاتیں۔ شیعہ حضرات نے جب موضوعات کا وسیع میدان دیکھا تو وہ ان حضرات سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گئے۔ ان کی قدسی حدیث کا متن یوں ہے لو لاعلی ماخلقتک یعنی اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا : اگر علی نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔“