وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ
اور جب ابن مریم کو بطور مثال بیان کیا گیا، اچانک تیری قوم (کے لوگ) اس پر شور مچا رہے تھے۔
[٥٥] معبودوں کا جہنم میں داخلہ اور سیدنا عیسیٰ کا معاملہ :۔ جب سورۃ انبیاء کی یہ آیت ﴿ اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ﴾ (۹۸:۲۱)’’یعنی تم بھی اور اللہ کے سوا تم جن چیزوں کو پوجتے ہو، وہ سب جہنم کا ایندھن بنیں گے‘‘ نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے یہ اعتراض اٹھایا کہ عبادت تو عیسیٰ علیہ السلام کی بھی کی جاتی ہے۔ تو کیا وہ بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے؟ پھر اس اعتراض کا خوب پروپیگنڈا شروع کردیا۔ عبداللہ بن الزِبعریٰ نے یہی سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ خاموش رہے کیونکہ آپ خود کوئی جواب دینے کی بہ نسبت یہ بات زیادہ پسند فرماتے تھے کہ مشرکوں کے ایسے اعتراضات کے جو جواب بذریعہ وحی نازل ہوں وہی ان کو جواب دیا جائے۔ آپ کی خاموشی پر مشرکین قہقہے لگانے اور کھل کھلا کر ہنسنے لگے جس کا مطلب یہ تھا کہ ہماری اس دلیل نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چپ کرا دیا۔ بالفاظ دیگر ایسی مسکت دلیل پیش کرکے میدان مار لیا ہے۔