فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ
تو شیطان نے دونوں کو اس سے پھسلا دیا، پس انھیں اس سے نکال دیا جس میں وہ دونوں تھے اور ہم نے کہا اتر جاؤ، تمھارا بعض بعض کا دشمن ہے اور تمھارے لیے زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے۔
[٥٣] شیطان کی حقیقت :۔ یہ شیطان دراصل ابلیس ہی تھا جو جنوں کی جنس سے تھا اور آگ سے پیدا ہوا تھا۔ شیطان کی حقیقت یوں سمجھئے کہ فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں اور جن آگ سے یا نار سے۔ اور نور اور نار دونوں کا مادہ ایک ہی ہے، یعنی نور اور روشنی نور میں بھی ہوتی ہے اور نار میں بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ اگر حدت اور تمازت (گرمی کی شدت) کم ہو یا ندارد ہو اور روشنی کا عنصر ہی غالب ہو تو یہ نور ہے اور روشنی کا عنصر کم اور حدت و تمازت کا عنصر غالب ہو تو یہ نار ہے۔ اب جنوں کی ایک قدر مشترک تو فرشتوں سے ملتی ہے یعنی وہ اپنی شکلیں بدل سکتے ہیں اور اسی بنا پر ابلیس فرشتوں میں شامل ہوجاتا تھا، اور ایک قدر مشترک انسانوں سے ملتی ہے یعنی جن اور انسان دونوں مکلف مخلوق ہیں (٥١: ٥٦) اور صاحب اختیار و ارادہ ہیں۔ اسی بنا پر ابلیس نے تو سجدہ سے انکار کردیا تھا۔ لیکن فرشتوں میں سے کوئی ایسا کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اب جنوں یا انسانوں میں سے جو کوئی اس قوت اختیار و ارادہ کا غلط استعمال کر کے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور سرکشی پر اتر آئے وہ شیطان ہے۔ گویا شیطان جن بھی ہوتے ہیں اور انسان بھی۔ پھر شیطان کا لفظ ہر بد روح، خبیث اور موذی چیز پر بھی استعمال ہونے لگا۔ سانپ کو اسی وجہ سے جان (١٠: ٢٧) بھی کہا جاتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جو شیطان جنوں سے ہوگا۔ وہ دوسروں کو بدراہ اور گمراہ کرنے کے لحاظ سے انسانی شیطان سے زیادہ وسائل رکھتا ہے۔ جن شیطان اپنی شکلیں بدل کر اندر داخل ہو کر اور وسوسہ ڈال کر بھی دوسروں کو گمراہ کرسکتا ہے۔ جب کہ انسانی شیطان ان باتوں پر قادر نہیں ہوتا۔ فرشتوں کی مختلف اقسام اور ان کی ذمہ داریاں :۔ فرشتوں اور جنوں کی بہت سی اقسام اور صفات قرآن اور احادیث صحیحہ میں مذکور ہیں۔ فرشتوں کی پہلی قسم مقربین فرشتے ہیں۔ جن میں سے کچھ فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ چار ہیں۔ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ لوگوں کا حساب لینے کے لیے نزول اجلال فرمائیں گے تو اس وقت وہ فرشتے آٹھ ہوں گے۔ پھر کچھ فرشتے ایسے ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے عرش کے گرد گھیرا ڈالے رہتے ہیں۔ انہیں مقربین میں سے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو بہت سے فرشتوں کے سردار ہیں۔ مثلاً فرشتوں کی ایک قسم رسولوں یا پیغامبروں کی ہے۔ ان کے سردار جبریل ہیں۔ جن کی بہت سی صفات قرآن میں مذکور ہیں۔ وہ بڑے زور آور اور امین ہیں۔ ان کا نام روح، روح الامین اور روح القدس بھی ہے انبیاء علیہم السلام کے دلوں پر یہی جبریل اللہ کا کلام لے کر نازل ہوتے رہے ہیں۔ دوسرے سردار میکائیل یا میکال ہیں جو بادلوں، بارشوں اور برق ورعد وغیرہ پر مامور ہیں۔ تیسرے سردار عزرائیل ہیں جن کا دوسرا نام عزازیل بھی ہے، اور قرآن میں انہیں ملک الموت بھی کہا گیا ہے۔ یہ بھی جان نکالنے والے فرشتوں کی پوری جمعیت کے سردار ہیں کیونکہ کسی شخص کی جان نکالنے کے لیے ایک نہیں بلکہ کئی فرشتے آتے ہیں۔ ان میں ایک سردار اسرافیل ہیں جو قیامت کو ہونے والے واقعات اور نفخہ صور اول اور نفخہ صور ثانی اور بعض کے نزدیک نفخہ صور ثالث پر مامور ہیں۔ ان سب فرشتوں کو ملاء اعلیٰ بھی کہتے ہیں۔ پھر ان کے بعد سات آسمانوں کے اندر لاتعداد فرشتوں کی جمعیت موجود ہے جو آسمانوں یا کائنات یا اجرام فلکی کے انتظام و انصرام پر مامور ہیں۔ جب اللہ کی طرف سے کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو ان میں ایک کھلبلی سی مچ جاتی ہے اور گھبراہٹ اور ہیبت طاری ہوجاتی ہے اور وہ گھبراہٹ اس وقت دور ہوتی ہے۔ جب اللہ کا حکم متعلقہ آسمان تک پہنچ جاتا ہے اور نیچے والے فرشتے اوپر والوں سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے کون سا حکم نازل ہوا تھا ؟ انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ حکم جو بھی ہے ٹھوس حقائق پر مبنی ہے اور پھر وہ اس کی بجا آوری پر مستعد ہوجاتے ہیں۔ پھر کچھ ایسے فرشتے ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل اور تقدیس میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے بعد وہ فرشتے ہیں جو آسمان دنیا کے نیچے اور ہماری زمین کے قریب رہتے ہیں۔ ان میں وہ فرشتے بھی شامل ہیں جو ہر انسان کی حفاظت کے لیے اللہ نے مامور کئے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو انسانوں کے اعمال نامے لکھنے والے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو اللہ کے بندوں کی بروقت مدد کو پہنچتے ہیں، وہ بھی ہیں جو اللہ کی راہ میں چلنے والوں مثلاً جہاد یا طلب علم کی خاطر سفر کرنے کے راستہ میں اپنے پر بچھاتے ہیں۔ ایسے فرشتوں کو ملائک ارضیہ بھی کہا جاتا ہے پھر کچھ فرشتے جنت کو سجانے اور اس کے انتظام و انصرام میں مصروف ہیں اور کچھ جہنم پر مامور ہیں۔ ان کی تعداد انیس ہے یعنی جہنم میں انیس قسم کے عذاب ہوں گے۔ جن کا انتظام ایک ایک فرشتہ کے سپرد ہے۔ ان انیس فرشتوں کے سردار کا نام مالک ہے اور اس جہنم کے عذاب پر پورے عملے یا محکمے کا نام زبانیہ ہے۔ صفات کے لحاظ سے فرشتوں کی اقسام :۔ صفات کے لحاظ سے بھی فرشتوں کی کئی اقسام ہیں۔ کچھ فرشتے دو پروں والے ہیں کچھ تین والے، کچھ چار والے۔ حتیٰ کہ جبریل امین کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اصلی شکل میں دیکھا تو ان کے چھ سو پر تھے، اور یہ تو ہم بتا چکے ہیں کہ فرشتوں کی پیدائش نور سے ہوئی ہے جو نہایت لطیف چیز ہے۔ سب سے لطیف تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ پھر حاملین عرش اور گھیرا ڈالنے والے اور مقربین فرشتے ہیں۔ پھر ان کے بعد آسمانوں کے فرشتے، پھر ان کے بعد ملکوت ارضیہ کی باری آتی ہے۔ گویا نور اور اس کی لطافت کے بھی کئی درجے ہیں۔ ملکوت ارضیہ نسبتاً کم لطیف ہوتے ہیں۔ تاہم ان سب فرشتوں میں چند صفات مشترک پائی جاتی ہیں۔ مثلاً سب فرشتوں کی تخلیق نور سے ہوئی ہے۔ سب فرشتے اللہ کے فرمانبردار اور عبادت گزار ہیں اور ان کی یہ عبادت اضطراری ہے اختیاری نہیں۔ یعنی وہ اللہ کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتے کیونکہ ان میں شر کا مادہ موجود ہی نہیں ہے۔ نیز یہ سب فرشتے غیر مرئی ہیں انسانوں کو نظر نہیں آ سکتے اور یہ سب فرشتے اپنی شکلیں بدل سکتے اور ہر مقام پر پہنچ سکتے ہیں۔ جنوں کی اقسام اور صفات :۔ جنوں کا قصہ یہ ہے کہ ان کی پیدائش نور کے بجائے ناریا آگ سے ہوئی ہے۔ جو نور سے بہرحال کم تر لطیف چیز ہے۔ پھر لطافت اور صفات کے لحاظ سے ان کی بھی کئی اقسام ہیں۔ کچھ ایسے جن ہیں جو آدمیوں کی بستیوں میں رہتے ہیں۔ انہیں عامر کہتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک قسم ہے جو ہر انسان کے ساتھ لگی رہتی اور اسے برے کاموں پر اکساتی اور وسوسے ڈالتی رہتی ہے۔ اسے ہماری زبان میں ہمزاد کہتے ہیں۔ اس قسم کو شیطان کہتے ہیں۔ جس کے متعلق نبی نے فرمایا ہے کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ پھر کچھ ایسے جن ہیں جو لڑکوں بالوں کو ستاتے ہیں۔ ان کو اہل عرب ارواح کہتے ہیں اور ہم بھوت پریت یا آسیب کہتے ہیں اور جو جنگل میں آواز دیتے اور چیختے چلاتے ہیں ان کو ہاتف کہتے ہیں اور جو مسافروں کو بھولی ہوئی راہ بتا دیتے ہیں ان کو رجال الغیب کہتے ہیں اور کبھی جنگل میں مشعل سی دکھائی دیتی ہے ان کو شہابہ کہتے ہیں۔ جن بھی انسان کی طرح مکلف مخلوق ہے یعنی ان کی فطرت میں خیر و شر دونوں چیزیں موجود ہیں۔ ان میں کچھ جن صالح اور ایماندار ہیں اور اکثر شریر اور بدکردار ہیں۔ ان کو شیطان کہتے ہیں اور جو بہت زیادہ سرکش ہوں ان کو مارد کہتے ہیں اور جسامت کے لحاظ سے جو بہت عظیم الجثہ اور طاقتور ہوں انہیں عفریت کہتے ہیں۔ جنوں میں لطیف تر وہ جن ہیں جن کی رسائی آسمانی دنیا تک بھی ہو سکتی ہے اور کثیف وہ ہیں جو زمین پر ہی رہتے ہیں۔ بعض لوگوں کے خیال کے مطابق ابلیس ایک صالح اور عبادت گزار جن تھا جو ملائکہ ارضیہ کے ساتھ گھلا ملا رہتا تھا۔ جب فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا گیا تو آدم علیہ السلام سے رقابت کی بنا پر اس کے شر کی رگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس کی انا نے گوارا نہ کیا۔ کہ ایک ارضی مخلوق کی برتری تسلیم کرے، اور یہی انا اور تکبر اسے لے ڈوبا، اور چونکہ جنوں میں بھی توالدو تناسل کا سلسلہ جاری ہے۔ لہٰذا ابلیس کی اور پھر اس کی اولاد کی پہلے دن سے آدم علیہ السلام اور اس کی اولاد سے ٹھن گئی، اور چونکہ اس سجدہ آدم کے مقابلہ میں ابلیس نے ایک صالح جن کا کردار ادا نہیں کیا تھا بلکہ شیطان جن کا کیا تھا۔ لہٰذا قرآن میں ابلیس کو ہی کئی مقامات پر شیطان کہا گیا ہے۔ فرشتوں کے وجود کے منکرین اور ان کی تاویلات :۔ فرشتوں اور ابلیس کے متعلق ہمیں یہ لمبی چوڑی تفصیل اس لیے دینا پڑی کہ یہ قصہ آدم و ابلیس کے اہم کردار ہیں۔ نیز اس لیے بھی فرشتوں کے وجود پر ایمان لانا ازروئے قرآن نہایت ضروری اور ایمان بالغیب کا ایک حصہ ہے۔ لیکن ان تمام تر قرآنی تصریحات کے علی الرغم مسلمانوں میں سے ہی کچھ لوگ فرشتوں کے خارجی وجود اور ذاتی تشخص کے قائل نہیں۔ ہمارے ملک میں اس طبقہ کے سرخیل سر سید احمد خان ہیں۔ جن کا کچھ ذکر سورۃ فاتحہ کے آخر حاشیہ میں گزر چکا ہے۔ سرسید کی مغربی افکار سے مرعوبیت :۔ وہ مغربی افکار و نظریات سے سخت مرعوب تھے۔ انہوں نے معجزات اور خرق عادت امور کا ہی انکار نہیں کیا بلکہ فرشتوں اور جنوں کے بارے میں بھی کئی قسم کی تاویلات کر کے ان کا انکار کردیا اور جب علماء کی طرف سے شدید گرفت ہوئی تو اپنی ایک تقریر میں فرمایا کہ ’’صاحبو! میرا عقیدہ بھی وہی ہے جو سلف کا ہے۔ مگر اس وقت اسلام پر علوم جدیدہ سے وہ مصیبت برپا ہے جو بنی عباس کے دور میں یونانی فلسفہ سے برپا تھی۔ جس طرح اس وقت کے علماء نے ان کے جواب دینے کے لیے علم کلام بنایا۔ میں نے ان اعتراضات کے رفع کرنے کے لیے کلام جدید کی بنیاد ڈالی اور موجودہ دور کی مصیبت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ پہلے تو علماء حجروں میں بیٹھ کر خیالی دلائل بنا کر ہی رفع کردیتے تھے اور اب تو مخالفین دور بینوں وغیرہ آلات کے ذریعہ سے مشاہدہ کرا دیتے ہیں۔'' آپ کے اس اقتباس سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ مغربی افکار سے کس قدر مرعوب تھے نیز یہ کہ آپ نے اسلام کا حلیہ بگاڑنے کی جو ٹھان رکھی تھی اس کے اصل محرکات کیا تھے؟ پھر آپ کی دلیل پر بھی غور فرمائیے دوربینوں سے صرف محسوسات اور مادی اشیاء کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جبکہ فرشتے اور جن دونوں محسوسات کے دائرہ سے خارج ہیں۔ بلکہ بلا خوف و تردید ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام نے کوئی بھی ایسا نظریہ پیش نہیں کیا جس کا سائنسی آلات یا علوم جدیدہ سے ابطال کیا جا سکے۔‘‘ بہرحال آپ نے فرشتوں اور جنوں سے متعلق جو انہونی تاویلات پیش فرمائیں ان کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں اور میں یہ تاویلات تفصیل کے ساتھ اپنی تصنیف آئینہ پرویزیت میں پیش کرچکا ہوں۔ البتہ فرشتوں سے متعلق ان تاویلات کا جائزہ لینا چاہتا ہوں جو ان کے ہونہار جانشین پرویز صاحب نے اپنی تصنیف قصہ آدم و ابلیس میں پیش کی ہیں پرویز صاحب مختلف مقامات پر فرشتوں سے مختلف تاویلات یا مرادیں پیش فرما دیتے ہیں جو کچھ اس طرح ہیں : ملائکہ سے مرادخارجی قوائے فطرت : ١۔ ملائکہ سے مراد و مفہوم وہ قوتیں ہیں جو کائنات کی عظیم القدر مشینری کو چلانے کے لیے مامور ہیں یعنی قوائے فطرت اس لیے قانون خداوندی کی زنجیر کے ساتھ جکڑی ہوئی ہیں کہ ان سے انسان کام لے سکے۔ اسی لیے قصہ آدم میں کہا گیا ہے کہ ملائکہ نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کردیا۔ مطلب یہ کہ فطرت کی قوتیں انسان کے تابع فرمان بنا دی گئی ہیں۔ (ابلیس و آدم ١٤٤) اب سوال یہ ہے کہ اگر ملائکہ سے مراد فطرت کی قوتیں لیا جائے تو یہ فطرت کی قوتیں ہرگز انسان کے تابع فرمان نہیں ہیں۔ طوفان بادو باراں سے سینکڑوں انسان مر جاتے ہیں۔ مکانات منہدم ہوجاتے ہیں۔ چھتیں اڑ جاتی ہیں۔ آفات ارضی و سماوی سے تیار شدہ فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ کیا انسان کا ان فطرت کی قوتوں پر اس وقت کوئی بس چلتا ہے؟ پھر انسان ایسے ''ملائکہ'' کا مسجود کیسے ہوا ؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ ان کائنات کی قوتوں کا تو کوئی دہریہ بھی منکر نہیں ہوتا۔ پھر ایسے ''ملائکہ'' پر ایمان بالغیب لانے کا کیا مطلب ہوا ؟ قرآن پاک میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے (٦٩: ١٧) اب اس کی تشریح پرویز صاحب کی زبان سے سنئے : ٢۔ حاملین عرش ملائکۃ کی وضاحت :۔ ”عرش وہ مرکز حکومت خداوندی ہے۔ جہاں کائنات کی تدبیر امور ہوتی ہے اور چونکہ یہ تدبیر امور ملائکہ کی وساطت سے سر انجام پاتی ہے۔ اس لیے ملائکہ، عرش الٰہی کے اٹھانے والے اور کمر بستہ اس کے گرد گھومنے والے ہیں۔'' (ایضاً ص ١٤٧) اب دیکھئے اس تشریح میں پرویز صاحب نے قرآن کریم کے دو مختلف مقامات کی آیات کو گڈ مڈ کر کے پیش کردیا ہے۔ آٹھ فرشتوں کے عرش الٰہی کو اٹھانے کا ذکر سورۃ الحاقہ (٦٩) کی ساتویں آیت میں ہے اور گھومنے والے فرشتوں کا ذکر سورۃ زمر (٣٩) کی آخری آیت نمبر ٧٥ میں ہے اور یہ گھومنے والے حافین کا ترجمہ کیا گیا ہے، جو ویسے بھی غلط ہے اس کا صحیح ترجمہ گھیرا ڈالے ہوئے ہے نہ کہ گھومنے والے۔ علاوہ ازیں گھیرا ڈالنا یا گھومنا الگ عمل ہے اور عرش کو اٹھانا الگ عمل ہے، جو عرش کو اٹھائے ہوں وہ گھوم نہیں سکتے اور جو گھوم رہے ہوں گے وہ اٹھانے والے نہیں ہوں گے، جو کچھ بھی ہو ان دونوں آیات سے فرشتوں کا خارجی وجود اور ذاتی تشخص دونوں باتیں ثابت ہو رہی ہیں جو آپ کے پہلے نظریہ ”قوائے فطرت “ کے برعکس ہیں۔ ٣۔ ”لہٰذا یہ ملائکہ ہماری اپنی داخلی قوتیں ہیں۔ یعنی ہمارے اعمال کے اثرات جو ہماری ذات پر مرتب ہوتے رہتے ہیں اور جب انسانی اعمال کے نتائج محسوس شکل میں سامنے آتے ہیں قرآن اسے قیامت سے تعبیر کرتا ہے۔ (ایضا ص ١٦٢) ملائکہ سے مراد داخلی قوتیں :۔ اب دیکھئے اس مختصر سے اقتباس میں پرویز صاحب نے بہت سے پیچیدہ مسائل کو حل فرما دیا۔ مثلاً : ١۔ ہماری داخلی قوتیں، قوت باصرہ، لامسہ، ذائقہ، سامعہ، دافعہ، حافظہ وغیرہ یا کچھ بھی ہیں۔ اگر یہی قوتیں ملائکہ ہیں تو پھر ان پر ایمان بالغیب لانے کا قرآنی مطالبہ ہی غلط قرار پاتا ہے۔ اس لئے کہ ان داخلی قوتوں کو تو کافر اور دہریئے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ٢۔ آپ کی پہلی تعریف کے مطابق ملائکہ سے مراد خارجی قوتیں تھا۔ اب اس تعریف کے لحاظ سے ملائکہ سے مراد انسان کی داخلی قوتیں بن گیا۔ ٣۔ اب ان داخلی قوتوں سے بھی مراد یہ ہے کہ ’’ہمارے اعمال کے اثرات جو ہماری ذات پر مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ گویا ملائکہ کی تیسری تعریف ‘‘ہماری ذات پر مرتب ہونے والے اثرات ہیں۔ ٤۔ قیامت کا مفہوم آپ نے یہ بتایا کہ جب انسانی اعمال کے نتائج محسوس شکل میں سامنے آ جائیں تو قرآن اسے قیامت سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک کسان اگر بیج بوتا ہے تو جب اس سے کونپل نکل آئے یا زیادہ سے زیادہ فصل پک کر تیار ہوجائے اور اس کے عمل کا نتیجہ محسوس شکل میں سامنے آ گیا تو گویا قرآن کی رو سے اس کی قیامت آ گئی۔ اس تصریح سے آپ کے قیامت پر ایمان لانے کے تصور پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ’’ان مقامات سے ظاہر ہے کہ جو طبعی تغیرات انسان کے جسم میں رونما ہوتے ہیں اور جن کا آخری نتیجہ انسان کی طبعی موت ہوتی ہے۔ انہیں بھی ملائکہ کی قوتوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔‘‘ (ایضاً ص ١٥٩) ملائکہ سے مراد طبعی تغیرات :۔ اب دیکھئے یہ طبعی تغیرات دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو کسی عمل کے نتیجہ کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً پانی پینے سے پیاس بجھ جاتی ہے۔ کھانا کھانے سے بھوک مٹ جاتی ہے۔ سیر اور ورزش سے جسم مضبوط اور صحت بحال رہتی ہے۔ دوسرے طبعی تغیرات وہ جن میں انسان کے عمل کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ جیسے اس کا بچہ سے جوان ہونا، پھر بوڑھا ہونا، پھر مر جانا۔ یہ سب امور ایسے ہیں جن کا ایمان بالغیب سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ طبعی ہیں، اور واقع ہو کر رہیں گے پھر ان طبعی تغیرات کو ملائکہ سے تعبیر کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے۔ ان طبعی تغیرات کو تو دہریے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ پھر ایسے ملائکہ پر ایمان بالغیب لانے کا کیا مطلب؟ ٤۔ ان مقامات (یعنی بدر کے موقعہ پر تین ہزار ملائکہ کا نزول یا ایسی ہی دوسری آیات) پر غور کیجئے۔'' ملائکہ کی مدد'' کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اس سے جماعت مومنین کے دلوں کو تسکین ملی تھی اور ان کے عزائم پختہ ہوگئے تھے۔ دوسری طرف دشمنوں کے دل خوف زدہ ہوگئے تھے اور ان کے حوصلے چھوٹ گئے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان مقامات میں ملائکہ سے مراد وہ نفسیاتی محرکات ہیں جو انسانی قلوب میں اثرات مرتب کرتے ہیں۔ (ایضاً ص ١٥٥) ملائکہ سے مراد نفسیاتی محرکات :۔ اب دیکھئے اس اقتباس میں بھی پرویز صاحب نفسیاتی محرکات کو داخلی قسم کی کوئی شے قرار دے کر فریب دینے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ جب معاملہ داخلی قسم کا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے اسی انداز میں پیش فرماتے ہیں۔ جیسے مومنوں کے لیے فرمایا آیت ﴿فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہُ عَلَیْہِ﴾(۴۰:۹) اور کافروں کے لیے فرمایا: ﴿وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ﴾(۲:۵۹) لیکن یہ میدان بدر کا معاملہ داخلی قسم کا نہیں ہے۔ بلکہ یہ خارجی امداد یا محرکات تھے۔ جیسے اگر ایک انسان دوسرے کو گالی دے تو وہ سیخ پا ہوجاتا ہے یا کوئی دوسرے کا خوف رفع کر دے تو وہ مطمئن بھی ہوجاتا ہے اور اس مصیبت کو رفع کرنے کا مشکور بھی ہوتا ہے۔ یہی صورت حال بدر میں پیش آئی تھی۔ اب اگر اس سے وہی مطلب لیا جائے جو پرویز صاحب فرما رہے ہیں۔ تو تین سو تیرہ مجاہدین کے لیے پانچ ہزار ملائکہ کی مدد کی کیا صورت بن سکتی ہے؟ ”اگر ایک طرف ملائکہ ایمان و استقامت کی بنا پر اللہ کی رحمتوں کی نور افشانی کرتے ہیں تو دوسری طرف کفر و سرکشی کے لیے عذاب خداوندی کے حامل بھی ہوتے ہیں ”عذاب خداوندی“سے مفہوم یہ ہے۔ غلط قوموں کی پرورش کے تباہ کن نتائج۔ لہٰذا اس باب میں ملائکہ سے مراد وہ قوتیں ہیں جو قانون خداوندی کے مطابق انسانی اعمال کے نتائج مرتب کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتی ہیں۔‘‘ (ایضاً ١٥٨) رحمت اور عذاب کے فرشتے : اب دیکھئے لوط علیہ السلام کے پاس فرشتے آئے اور لوط علیہ السلام کو بستی سے نکل جانے کو کہا۔ جب وہ نکل گئے تو ان فرشتوں نے قوم لوط کی بستی کو لواطت کے جرم میں الٹ مارا۔ اب اگر محض قوانین خداوندی اور علت و معلول کا سہارا لیا جائے تو ہر لوطی قوم کا یہی انجام ہونا ضروری ہے کیونکہ قوانین خداوندی میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انگلستان میں یہی عمل قوم لوط موجود ہے اور اسے قانونی جواز کی سند بھی حاصل ہے۔ اب قوانین خداوندی کے مطابق ان قوتوں (ملائکہ) کو یقینا ًان کے اعمال کا نتیجہ وہی مرتب کرنا چاہیے تھا جیسا کہ قوم لوط کے اعمال کا مرتب ہوا۔ مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ جس کا واضح نتیجہ یہ ہے کہ اعمال کو مرتب کرنے والی ہستی کوئی باشعور ہستی ہے جو اپنی مشیئت کے مطابق ہی نتائج مرتب کرتی ہے جو اپنے ہی بنائے قوانین کی پابند نہیں ہے اور نہ ہی ملائکہ بے جان و بے شعور قوتیں ہیں جو لگے بندھے نتائج مرتب کریں۔ وہ فرشتے جاندار اور باشعور ہستیاں ہیں اور قانون خداوندی کی نہیں بلکہ خداوند کے حکم کی اطاعت کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہی فرشتے جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا لوط علیہ السلام کے پاس آتے ہیں تو رحمت کے فرشتے ہوتے ہیں اور وہی فرشتے قوم لوط کے لیے عذاب کے فرشتے بن جاتے ہیں۔ ’’دو، تین چار پروں سے اپنی قوت کے اعتبار سے ملائکہ کے مختلف مدارج و طبقات کا ذکر مقصود ہے۔‘‘ (ایضاً ١٦٧) دو دو، تین تین،چار چار پروں والے فرشتے اور ان کی قوت اور مدارج :۔ گویا پرویز صاحب کے نزدیک جیسے کوئی بجلی کی موٹر ٢ ہارس پاور کی ہوتی ہے۔ کوئی تین ہارس پاور کی اور کوئی چار کی۔ یہی صورت حال فرشتوں کی بھی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ قوت اور مدارج یہ دونوں عربی زبان کے لفظ ہیں اور قرآن میں انہی معروف معانی میں استعمال بھی ہوتے ہیں۔ پھر آخر فرشتوں کے لیے قوت اور درجہ کی بجائے اجنحہ (بازو، پر) کے لفظ استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ علاوہ ازیں چڑیا کے بھی دو پر ہوتے ہیں اور چیل کے بھی۔ لیکن ان دونوں کے دو دو پر ہونے کے باوجود قوت میں بڑا فرق ہے۔ اور مختلف مدارج کا معاملہ تو پرویز صاحب ہی بہتر جانتے ہیں۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں کہ ہر انسان کے دو دو ہی بازو ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں سے ہر ایک کی قوت میں فرق ہوتا ہے اور مدارج میں بھی۔ مدارج کا انحصار بازوؤں پر نہیں بلکہ تقویٰ پر ہوتا ہے۔ سو یہ ہے فرشتوں پر ایمان بالغیب، اصل مسئلہ یہ تھا کہ آیا فرشتے کوئی الگ مخلوق ہیں یا نہیں اور ان کا کوئی خارجی تشخص ہے یا نہیں؟ چونکہ یہ مسئلہ مافوق العادت (Super Natural) ہے اس لیے آپ کو ہر مقام پر تاویلات کرنا پڑیں، پرویز نے جتنی بھی ملائکہ کی تعبیریں پیش کی ہیں۔ یہ سب انسانوں حتیٰ کہ کافروں اور دہریوں میں بھی مسلم ہیں۔ لہٰذا ان کا نہ ایمان بالغیب سے کوئی تعلق ہے اور نہ قرآن کے واضح ارشادات ہیں۔ [٥٤] شیطان کی آدم کو فریب دہی :۔ مندرجہ بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شیطان (ابلیس) نے جو آدم علیہ السلام کا پہلے دن سے ہی رقیب اور دشمن بن گیا تھا۔ آدم کو گمراہ کرنے اور اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کرنے کے لیے کیا کچھ نہ کیا ہوگا شیطان وسوسے ڈالتا رہا اور سیدنا آدم علیہ السلام بچتے ہی رہے۔ آخر ایک مدت گزرنے کے بعد شیطان نے آدم علیہ السلام کو کئی طرح کے سبز باغ دکھا کر اسے اپنے دامن تزویر میں پھانس ہی لیا۔ اس لیے آدم علیہ السلام سے کہا : ’’اللہ کی قسم! میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور جس درخت سے تم بچ رہے ہو اسے کھاؤ گے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں رہو گے اور اللہ کے مقرب بن جاؤ گے۔‘‘ سیدنا آدم علیہ السلام اس کے فریب میں آ گئے، درخت کے پھل کو کھایا تو فوراً جنتی لباس چھن گیا اور جنت کے پتوں سے اپنے بدن کو ڈھانپنے لگے اور فوراً انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ ضمناً یہ بحث بھی نکلی کہ انبیاء سے خطا سرزد ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : ﴿فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا ﴾(۱۱۵:۲۰)آدم علیہ السلام (مدت مدید گزرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عہد کو) بھول گئے تھے اور ہم نے اس میں (نافرمانی کا) ارادہ نہیں پایا۔ گویا معلوم ہوا کہ انبیاء سے بھول چوک لغزش یا نافرمانی ہو سکتی ہے۔ عمداً نہیں اور عصمت انبیاء کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر انبیاء سے کوئی غلطی یا خطا سرزد ہو تو وہ معاف کردی جاتی ہے اور اگر کوئی قابل تلافی معاملہ ہو تو بذریعہ وحی اس کی تلافی بھی کردی جاتی ہے۔ [٥٥] یعنی شیطان کے روز اول سے انسان کا دشمن ہونے کی وجہ تو واضح طور پر بیان ہوچکی ہے لہٰذا انسان اگر شیطان کو فی الواقع دشمن سمجھے گا تو تب ہی اس کی نجات کی توقع ہو سکتی ہے اور بغض و عداوت کا مقام دنیا تو ہوسکتا ہے۔ جنت نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا سب کو جنت سے نکالا اور دنیا میں چلے جانے کا حکم دے دیا گیا۔