مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ
جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کے لیے اس کی کھیتی میں اضافہ کریں گے اور جو کوئی دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے ہم اس میں سے کچھ دے دیں گے اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں۔
[٣١] ایک دنیا دار اور دیندار کے انجام کا موازنہ :۔ اس آیت میں دو آدمیوں کے طرز زندگی کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ جن میں سے ایک تو روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور دوسرا اس سے منکر ہے اور سب کچھ اسی دنیا کو ہی سمجھتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص جو کام بھی کرے گا آخرت کے لیے کرے گا اور آخرت کے مفاد کو دنیا کے مفاد پر ترجیح دے گا۔ ایسا شخص جو کچھ بھی اس دنیا کی کھیتی میں آخرت کے دن پھل کاٹنے کے لیے بوئے گا اللہ تعالیٰ اس میں بہت زیادہ اضافہ کر دے گا۔ جیسا کہ اس دنیا میں غلہ کا ایک دانہ بیجنے سے بعض دفعہ سات سو سے بھی زیادہ دانے حاصل ہوجاتے ہیں۔ یہ تو اس کی آخرت کا معاملہ تھا۔ اور دنیا میں جتنا رزق یا جتنی بھلائی اس کے مقدر میں ہے وہ بھی اسے مل کے رہے گی۔ اس کے مقابلہ میں جو شخص روزآخرت کا منکر ہے اور بس دنیا ہی دنیا کا مال اور بھلائی چاہتا ہے۔ وہ خواہ کتنی ہی کوشش کر دیکھے اسے اتنی ہی دنیا میں ملے گی جتنی اس کے مقدر میں ہے اس سے زیادہ نہیں۔ رہا اس کی آخرت کا معاملہ تو اگر اس نے دنیا میں کچھ نیک کام کئے بھی ہوں گے تو ان کا اسے کچھ بدلہ نہ ملے گا کیونکہ وہ کام اس نے اس نیت سے کیے ہی نہیں تھے کہ ان کا آخرت میں اسے کچھ بدلہ ملے، نہ ہی اس کا آخرت پر کچھ یقین تھا۔