سورة الشورى - آیت 14

وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِن بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ جدا جدا نہیں ہوئے مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آگیا، آپس کی ضد کی وجہ سے اور اگر وہ بات نہ ہوتی جو تیرے رب کی طرف سے ایک مقرر وقت تک پہلے طے ہوچکی تو ضرور ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا اور بے شک وہ لوگ جو ان کے بعد اس کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اس کے متعلق یقیناً ایسے شک میں مبتلا ہیں جو بے چین رکھنے والا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٨] فرقہ بازی کے اسباب :۔ لوگوں میں اختلاف اور تفرقہ بازی اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ اللہ کی کتاب میں کوئی بات مبہم اور مختلف فیہ ہوتی ہے۔ جس کی لوگوں کو پوری طرح سمجھ نہیں آتی بلکہ اس کی اصل وجہ اپنا اپنا جھنڈا بلند کرنے کی خواہش، باہمی ضد، اپنی نرالی اپچ دکھانے کی خواہش، ایک دوسرے کو زک دینے کی کوشش یا مال و جاہ کی طلب ہوتی ہے۔ یہی وہ اسباب تھے جو نئے نئے عقائد اور فلسفے، نئے نئے طرز عبادت اور مذہبی مراسم اور نئے نئے نظام حیات ایجاد کرنے کا محرک بنے اور خلق خدا کے ایک بڑے حصے کو دین کی سیدھی اور کشادہ راہ سے ہٹا کر مختلف راہوں میں پراگندہ کردیا اور امت کے ٹکڑے کر ڈالے۔ [١٩] پہلے سے طے شدہ بات یہ ہے کہ انسان کو اختیار دے کر اس دنیا میں اس کا امتحان کیا جائے۔ اور اگر ایسی کرتوتوں کے بدلہ میں ان پر فوراً عذاب نازل کردیا جائے تو امتحان کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ لہٰذا انہیں مہلت دی جاتی ہے۔ اور اس امتحان کا آخری وقت ان کی موت ہے۔ [٢٠] پہلی الہامی کتابیں مشکوک کیسے ہوئیں؟ ان وارثوں کے اپنی الہامی کتابوں کے بارے میں شک میں پڑنے کی کئی وجوہ تھیں جن میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں کی اصل زبان اور اصل عبارت کو محفوظ رکھ کر آنے والی نسلوں تک نہ پہنچایا گیا۔ اور صرف تراجم سے کام لیا جانے لگا۔ اور ان تراجم کو ہی الہامی کتاب سمجھا جانے لگا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ بزرگوں کے اقوال اور الحاقی مضامین ان میں شامل کردیئے گئے۔ حتیٰ کہ ان دونوں قسم کی عبارتوں میں تمیز کرنا مشکل ہوگیا اور تیسری وجہ یہ تھی کہ ان کی تاریخی سند بھی ضائع کردی گئی۔ ان سب باتوں کا اثر یہ ہوا کہ بعد میں آنے والے علماء خود اس کتاب سے شک میں پڑگئے کہ اس کا کون سا حصہ درست اور الہامی ہے اور کون سی عبارت بزرگوں کے اقوال وغیرہ ہیں۔ اور کسی بات کا صحیح فیصلہ کرنے میں یہی شک و شبہ انہیں اضطراب میں ڈالے رکھتا تھا۔