سورة الشورى - آیت 11

فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا ۖ يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ ۚ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

(وہ) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اس نے تمھارے لیے تمھارے نفسوں سے جوڑے بنائے اور جانوروں سے بھی جوڑے۔ وہ تمھیں اس (جہاں) میں پھیلاتا ہے، اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١] میرے اللہ پر توکل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت بڑی قوت اور قدرت کا مالک ہے جس نے اس پوری کائنات کو وجود بخشا ہے اور اس زمین کو اس نے بڑے محیرالعقول طریقوں سے انسانوں اور دوسرے جانوروں کے جوڑے بنا کر اور ان سے نسلیں پھیلا کر اس زمین کو آباد کر رکھا ہے۔ [١٢] اللہ پر توکل کیوں کرنا چاہئے؟ اس کی مختلف وجوہ :۔ یہ اللہ پر توکل کرنے کی دوسری وجہ ہے۔ یعنی وہ ایسی ذات ہے جس کے مثل کائنات کی کوئی چیز نہیں۔ ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَئیٌ﴾ کا لفظی معنی یہ بنتا ہے کہ ’’کوئی چیز اس کے مثل کی مانند نہیں‘‘ اور اس انداز بیان میں مزید مبالغہ پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مثلاً اس کے ہاتھ تو ہیں۔ مگر ایسے نہیں جیسے ہمارے ہیں یا کسی دوسرے جاندار کے ہیں۔ اور حدیث میں ہے کہ اللہ کے دونوں ہی ہاتھ داہنے ہیں جو مخلوق کو روزی پہنچانے کے لیے ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ ہماری طرح نہیں اور نہ ہی ہماری طرح اس کا جسم ہے۔ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ جبکہ انسان بھی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ اس میں فرق یہ ہے کہ انسان ایک وقت میں صرف ایک کی بات سن سکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ایک ہی وقت میں اپنی ساری مخلوق کی بھی پکار اور دعائیں سنتا ہے۔ یہی صورت اس کے دیکھنے کی ہے۔ یہ کیسے ہوتا ہے یہ سمجھنا ہماری بساط سے باہر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسی ذات ہی بھروسہ کے قابل ہوسکتی ہے جو ہر وقت ہر ایک کی پکار اور فریاد سن سکتی ہو اور وہ ہر چیز کو بچشم خود دیکھ بھی رہی ہو۔