وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
اور وہ چیز جس میں تم نے اختلاف کیا، کوئی بھی چیز ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے، وہی اللہ میرا رب ہے، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔
[٩] اختلافات کا فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے؟:۔ اصل دین چونکہ اللہ نے ہی بذریعہ وحی اپنے رسول اور بندوں کی طرف بھیجا تھا لہٰذا اگر بندے اس دین میں اختلاف کریں تو ان میں فیصلہ کا حق بھی اللہ ہی کو ہے کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ میں نے جو دین بھیجا تھا وہ تو یہ تھا اور تم نے فلاں فلاں مقام پر غلط تاویلات کرکے باہم اختلاف کرلیا تھا۔ ہوتا یہ ہے کہ ہر صاحب شریعت نبی ایمان لانے والوں کو ایک امت بناتا ہے۔ بعد میں لوگ اس میں اختلاف پیدا کرکے کئی فرقوں میں بٹ جاتے ہیں۔ پھر جو بعد میں نبی آتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر وحی کرکے لوگوں کو اصل دین سے مطلع کردیتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ دنیا میں لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کردیتا ہے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ اختلافات کا جو فیصلہ فرمائے گا وہ کھلی عدالت میں فرمائے گا۔ اختلاف کرنے والے لوگوں کی باقاعدہ پیشی ہوگی۔ پھر ان پر شہادتیں قائم ہوں گی اور انہیں بتایا جائے گا کہ اصل دین کیا تھا اور تم نے کیا کچھ حیلے اور مکاریاں کرکے اصل دین کا حلیہ بگاڑا تھا۔ خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا تھا۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنے تمام اختلافی مسائل میں اللہ کے کلام یعنی قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ پھر چونکہ قرآن رسول کی اطاعت کو واجب اور اپنی ہی اطاعت قرار دیتا ہے۔ لہٰذا کتاب اللہ اور سنت رسول دونوں کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ تفرقہ بازی اور اختلافات سے بچنے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ انسان کتاب و سنت کے سامنے کھلے دل سے سر تسلیم خم کردے اور اس مطلب کی تائید سورۃ نساء کی آیت نمبر ٥٩ اور ٦٤ سے بھی ہوجاتی ہے۔ [١٠] یعنی میں ہمیشہ کے لیے اللہ پر توکل کرنے کا فیصلہ کرچکا ہوں۔ پھر جب بھی مجھے کوئی مشکل پیش آتی ہے تو میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔