وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِيضٍ
اور جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں وہ منہ موڑ لیتا ہے اور اپنا پہلو دور کرلیتا ہے اور جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو (لمبی) چوڑی دعا والا ہے۔
[٦٩] خوشحالی میں اکثر انسانوں کا اللہ کو بھول جانا :۔ یعنی جب انسان پر خوشحالی اور آسودگی کا دور آتا ہے تو پھولا نہیں سماتا اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس وقت دراصل وہ خود خدا بنا بیٹھا ہوتا ہے۔ اور اگر اسے اللہ کی آیات سنائی جائیں اور یہ بتایا جائے کہ یہ سب انعام اللہ ہی نے کیا لہٰذا تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اس کے حقوق ادا کرنے چاہیں اور اپنے برے انجام سے ڈرنا چاہئے تو اسے ایسی باتیں ناگوار اور تلخ محسوس ہوتی ہیں جنہیں وہ سننا بھی گوارا نہیں کرتا اور اٹھ کر چلا جاتا ہے۔ لیکن جب پھر کسی بلا میں پھنس جاتا ہے تو اس وقت اسے اپنا وہ پروردگار یاد آنے لگتا ہے جس کی آیات سننے سے بھی بدکتا تھا۔ دل میں تو مایوس ہوتا ہے کیونکہ اسے اس مصیبت سے نجات کے ظاہری اسباب نظر نہیں آتے۔ مگر جب تکلیف اسے پریشان کردیتی ہے تو بے اختیار اس کے ہاتھ اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔ اور پھر وہ اللہ سے لمبی چوڑی دعائیں بھی کرتا ہے اور وعدے وعید بھی کرنے لگتا ہے۔ اور یہ حالت چونکہ اس کی اضطراری کیفیت ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر اللہ اسے اس مصیبت سے نجات دے بھی دے تو بعد میں پھر وہ وہی کچھ بن جاتا ہے جو پہلے تھا۔ اِلا ماشاء اللہ تھوڑے ہی لوگ ہوتے ہیں جو بعد میں اللہ سے کئے ہوئے اس قول و قرار کو یاد رکھتے اور حقیقتاً اس کے فرمانبردار بن جاتے ہیں۔ اکثریت ایسی ہی ہوتی ہے جو خوشحالی کے دور میں اپنے پروردگار کو یکسر بھول ہی جاتی ہے۔