وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَٰذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِندَهُ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ
اور یقیناً اگر ہم اسے کسی تکلیف کے بعد جو اسے پہنچی ہو، اپنی طرف سے کسی رحمت کا مزہ چکھائیں تو ضرور ہی کہے گا یہ میرا حق ہے اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہونے والی ہے اور اگر واقعی مجھے اپنے رب کی طرف واپس لے جایا گیا تو یقیناً میرے لیے اس کے پاس ضرور بھلائی ہے۔ پس ہم یقیناً ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا ضرور بتائیں گے جو کچھ انھوں نے کیا اور یقیناً ہم انھیں ایک سخت عذاب میں سے ضرور چکھائیں گے۔
[٦٦] آسائش میں اپنی تدبیر پر ناز :۔ اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ اگر ہم اس کی تنگی، فاقہ یا بیماری کو دور کردیں اور اس پر بھلے دن آجائیں تو پھر بھی اللہ کی طرف نہیں ہوتا، نہ اس ذات کا شکر ادا کرتا ہے جس نے اس کی تکلیف کو دور کردیا جس سے وہ قطعاً مایوس ہوچکا تھا۔ بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ بس اس کی حسن تدبیر اور محنت کا نتیجہ تھا اور اگر میرے دن پھر گئے ہیں تو میں فی الواقع اس بات کا مستحق تھا۔ [٦٧] مالدار اور دنیا دار لوگوں کا نظریہ کہ اگر اللہ آج مجھ پر خوش ہے تو قیامت کو کیوں نہ ہوگا :۔ ایسا شخص اگر اللہ کی ہستی کو مانتا بھی ہے تو اس کی معرفت انتہائی ناقص ہوتی ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ سب کچھ بس میں ہی ہوں۔ میرے اوپر کوئی ایسی ہستی نہیں جو کلیتاً میرے نفع و نقصان کی مالک ہو اور میری زندگی کی باگ ڈور اسی کے ہاتھوں میں ہو۔ اسی طرح روز آخرت اور اعمال کی جزا و سزا پر بھی اس کا ایمان انتہائی ناقص ہوتا ہے اور لوگوں کے کہنے پر وہ یہ فرض کرلیتا ہے کہ اگر مجھے اپنے پروردگار کے سامنے جانا بھی پڑا تو کیا وجہ ہے کہ وہ مجھے عذاب دے۔ میری موجودہ خوشحالی ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی خدا ہے تو وہ یقیناً مجھ سے خوش ہے۔ پھر اس دن آخر کیوں خوش نہ ہوگا۔ گویا ایسے لوگوں کے نزدیک دنیا کی خوشحالی ہی ان کے پروردگار کی خوشنودی کی دلیل ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ جس شخص کا اپنے پروردگار اور آخرت کے بارے میں ایسا غلط اور کمزور قسم کا ایمان ہو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ کافر بھی ہوتا ہے اور مشرک بھی۔ جیسا کہ سورۃ کہف کے پانچویں رکوع میں بالکل ایسے ہی شخص کا قصہ گزر چکا ہے۔ اور ایسے شخص کی صحیح ذہنیت درج ذیل حدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے : سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مکہ میں لوہار کا پیشہ کرتا تھا۔ میں نے عاص بن وائل سہمی کے لیے ایک تلوار بنائی۔ اس کی مزدوری کے تقاضا کے لیے میں عاص کے پاس گیا اس نے کہا : میں تجھے یہ مزدوری اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم (کے دین) سے پھر نہ جائے۔ میں نے کہا۔ میں تو اس وقت تک بھی اس دین سے نہیں پھر سکتا جب کہ تو مر کر دوبارہ جی اٹھے گا۔ اس نے کہا : کیا میں مرنے کے بعد پھر جیوں گا ؟ میں نے کہا، ''بیشک'' وہ کہنے لگا : اچھا پھر جب میرے مرنے کے بعد اللہ مجھ کو زندہ کرے گا تو آخر مال اور اولاد بھی دے گا۔ اس وقت میں تیرا قرضہ ادا کردوں گا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ مریم۔ باب قولہ اطلع الغیب) [٦٨] غلیظ کے معنی موٹا۔ دبیز، گاڑھا، سخت اور گندہ سب کچھ آتا ہے۔ اور یہاں یہ لفظ سخت اور گندہ دونوں معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ غلاظت مشہور لفظ ہے۔ اور یہ عذاب گندہ اس لحاظ سے ہوگا کہ ایسے لوگوں کو پینے کے لیے پیپ، کچ لہو، زخموں کا دھوون، انتہائی متعفن بدبودار اور شدید ٹھنڈا پانی، ایسی ہی چیزیں پینے کو ملیں گی جن سے انسان کو گھن آتی ہے۔ اور اس کے سخت ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔