وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ۖ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ۗ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۚ أُولَٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ
اور اگر ہم اسے عجمی قرآن بنا دیتے تو یقیناً وہ کہتے اس کی آیات کھول کر کیوں نہ بیان کی گئیں، کیا عجمی زبان اور عربی (رسول)؟ کہہ دے یہ ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہدایت اور شفا ہے اور وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے اور یہ ان کے حق میں اندھا ہونے کا باعث ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں بہت دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے۔
[٥٥] اگر قرآن عجمی زبان میں نازل ہوتا تو کفار کے اعتراض کی صرف نوعیت ہی بدلتی :۔ یہ ضد اور ہٹ دھرمی کافروں کی خوئے بد کی ایک اور مثال ہے۔ اعتراض کرتے وقت وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے اس اعتراض میں کچھ معقولیت ہے بھی یا نہیں؟ ان کا اعتراض یہ تھا کہ یہ رسول عربی ہے اور عربی زبان میں ہی کلام سناتا ہے۔ تو اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام اس کا اپنا تصنیف کردہ ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ کلام کسی دوسری زبان مثلاً فارسی یا رومی زبان میں ہوتا اور یہ فرفر ہمیں سناتا۔ اور ہم سمجھتے کہ یہ زبان تو یہ جانتا ہی نہ تھا۔ لہٰذا ممکن ہے کہ اللہ کا رسول ہو اور فرشتہ ہی اس کو ایسا کلام پڑھاتا ہو۔ اسی اعتراض کا اس آیت میں جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر ہم قرآن غیر عربی زبان میں نازل کرتے تو ان کے اعتراض کی شکل یہ ہوتی کہ : واہ! یہ بھی عجب معاملہ ہے۔ یہ نبی کلام ایسی زبان میں پیش کرتا ہے جسے ہم سمجھ بھی نہیں سکتے تو اس پر ایمان کیا لائیں؟ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے بہرحال اعتراض ہی کرنا ہے جو بھی صورت ہو اور یہی کام یہ لوگ کر رہے ہیں۔ [٥٦] آپ ایسے اعتراض کرنے والوں سے کہئے کہ جن لوگوں کی عقل سلیم ہے وہ اسی قرآن سے راہ ہدایت بھی حاصل کر رہے ہیں اور اپنی روحانی بیماریوں سے شفا بھی پا رہے ہیں۔ اگر تم خود سننا، دیکھنا اور ہدایت حاصل ہی نہ کرنا چاہو تو اس میں اللہ کی کتاب کا کیا قصور ہے جو اسے موردِالزام ٹھہراتے ہو؟ [٥٧] کافروں پر قرآن کے دلائل دھندلائے ہی رہتے ہیں :۔ ایک پرندہ ہے چمگاڈر جس کی آنکھیں سورج کی روشنی میں چندھیا جاتی ہیں اور وہ دن کی روشنی میں اپنی آنکھیں بند ہی رکھتا ہے۔ حالانکہ سورج سب کے لیے ایک عظیم نعمت ہے لیکن چمگاڈر کو بھلا نہیں لگتا۔ یہی حال ان کافروں کا ہے کہ آفتاب ہدایت نکلا تو ان کو بھلا نہیں لگتا۔ اس میں چشمہ آفتاب یا آفتاب ہدایت کا کیا قصور ہے۔ یہ اگر کچھ کلام اللہ سنتے بھی ہیں تو کانوں کے اندر پہنچنے ہی نہیں دیتے اور قرآن کے مضامین ہدایت اور دلائل توحید و معاد ان پر واضح ہوتے ہی نہیں بلکہ دھند لائے ہی رہتے ہیں۔ [٥٨] دور سے پکارنے والے کی آواز کانوں میں پڑ تو جاتی ہے۔ مگر یہ سمجھ نہیں آسکتی کہ کہنے والا کہہ کیا رہا ہے؟ یہی حال ان کافروں کا ہے کہ اگر قرآن کی آواز ان کے کانوں میں پڑ بھی جائے تو چونکہ ان کی خواہش ہی نہیں ہوتی کہ اس سے کچھ ہدایت حاصل کریں۔ لہٰذا قرآنی آیات کے مفاہیم و مطالب ان پر دھند لائے ہی رہتے ہیں۔