مَّا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِن قَبْلِكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ
تجھے نہیں کہا جائے گا مگر وہی جو ان رسولوں سے کہا گیا جو تجھ سے پہلے تھے اور بے شک تیرا رب یقیناً بڑی بخشش والا اور بہت دردناک عذاب والا ہے۔
[٥٣] رسولوں کو قوم سے کیا کچھ سننا پڑا ؟ :۔ اس طرح کی آیات کا نزول وقتاً فوقتاً ہوا اور بارہا ہوا اور ہونا چاہئے بھی تھا۔ کیونکہ تیرہ سالہ دور نبوت سارے کا سارا ہی کفار کے ہاتھوں ایذا رسانیوں میں گزرا۔ جن کی ایک قسم استہزاء اور اعتراضات بھی تھے۔ استہزاء اللہ کی آیات سے ہوتا تھا۔ اللہ کے رسول سے بھی اور مسلمانوں سے بھی۔ مثلاً یہی کہ کیا یہی شخص اللہ کو رسالت کے لیے ملا تھا ؟ یہ تو جادوگر ہے، کاہن، شاعر ہے مجنون ہے۔ اسی طرح یہ کہ اگر تم اپنے اس کام سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے یا مار ہی ڈالیں گے۔ یا یہ کہ تمہارے پیروکار کچھ کمینے اور رذیل سے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ ہم تو ان کی موجودگی میں تمہارے پاس بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتے چہ جائیکہ تمہاری باتیں سنیں۔ ایسی باتیں جو آپ کفار سے سنتے رہتے ہیں۔ پہلے رسولوں کو بھی یہ سب باتیں سننا پڑی تھیں۔ [٥٤] یہ اللہ تعالیٰ کی صفت حلم اور عفو ہی ہے کہ وہ اپنے دین کی اور اپنے فرمانبردار بندوں کی اس طرح توہین ہوتے دیکھ کر بھی ان سے درگزر کئے جاتا اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے۔ ورنہ اس کے صاحب انتقام ہونے کا تو یہی تقاضا تھا کہ انہیں فوراً کسی دردناک عذاب سے تباہ کر ڈالتا۔ مگر وہ اس عذاب کو مؤخر کئے جارہا ہے اور یہ سب کچھ اس کی مشیئت کے تحت ہو رہا ہے۔