إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ أَفَمَن يُلْقَىٰ فِي النَّارِ خَيْرٌ أَم مَّن يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
بے شک وہ لوگ جو ہماری آیات کے بارے میں ٹیڑھے چلتے ہیں، وہ ہم پر مخفی نہیں رہتے، تو کیا وہ شخص جو آگ میں پھینکا جائے بہتر ہے، یا جو امن کی حالت میں قیامت کے دن آئے؟ تم کرو جو چاہو، بے شک وہ اسے جو تم کر رہے ہو خوب دیکھنے والا ہے۔
[٤٩] الحاد کے معنی :۔ ﴿یُلْحِدُوْنَ﴾ کا مادہ لحد ہے اور لحد بمعنی قبر اور اس کا بغلی حصہ اور الحد بمعنی راہ راست سے کسی ایک طرف ہوجانا اور الحد السھم کے معنی تیر کا نشانہ کے کسی ایک پہلو میں لگنا اور الحد عن الدین کے معنی دین میں طعن کرنا۔ (مفردات القرآن) اور اس الحاد کا تعلق عقائد سے ہوتا ہے (فق۔ ل ١٨٩) جیسے اللہ کی ذات و صفات میں شک کرنا یا اس کے غلط معنی لینا یا معجزات سے انکار کرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَاۗیِٕہٖ ﴾یعنی جو لوگ اللہ کے ناموں (صفات) میں کجی اختیار کرتے ہیں۔ الحاد کا تعلق اللہ کی صفات سے۔ ملحدین کو کون کون سے فرقے ہیں؟:۔ اس لحاظ سے اس مقام پر اللہ کی آیات سے مراد اللہ کی صفات بیان کرنے والی آیات ہوگا اس کی مثال جیسے اللہ کی تقدیر سے تعلق رکھنے والی آیات میں الحاد کی بنا پر قدریہ اور جبریہ دو فرقے وجود میں آگئے۔ خوارج نے بھی اللہ کے حکم ہونے سے مراد یہ لی کہ اللہ کے علاوہ نہ اللہ کا قرآن حکم بن سکتا ہے اور نہ ہی انسان حکم بن سکتا ہے۔ معتزلہ نے اللہ کی صفات کو اللہ کی ذات سے جدا کرکے اللہ کی صفات کو حادث قرار دیا اور مسئلہ خلق قرآن کا فتنہ اٹھا کھڑا کیا۔ علاوہ ازیں جتنے بھی گمراہ فرقے ہیں سب ہی اللہ کی صفات میں الحاد کرکے اس سے اپنا مفید مطلب مفہوم کشید کرلیتے ہیں۔ ایسے ملحدین جو خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنتے ہیں سب اللہ کی نظر میں ہیں۔ اور وہ اس سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتے۔ [٥٠] انداز بیان میں سخت دھمکی پائی جاتی ہے اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی حاکم کسی مجرم کو کہے کہ جو کچھ تم کر رہے ہو میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں اور یہ خطاب ان لوگوں سے ہے جو اللہ کی آیات میں الحاد کی راہ اختیار کرتے ہیں۔