الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
[١١٩] اگر قرآنی آیات کی ترتیب پر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگر کہیں دوزخ کا ذکر فرمایا تو اس کے ساتھ ہی جنت کا ذکر فرمایا اور اس کے برعکس بھی اسی طرح اگر کہیں اسباب دخول دوزخ کا ذکر فرمایا تو اسی مناسبت سے اسباب دخول جنت کا ذکر فرما دیا اور اس کے برعکس بھی۔ یہاں بھی یہی صورت حال ہے۔ سود خواری، جو دوزخ میں دخول کا سبب ہے، کے بعد جنت اور اس میں داخل ہونے والے پرہیزگاروں کی چند صفات کا ذکر فرمایا۔ ان میں سب سے پہلی صفت انفاق فی سبیل اللہ ہے جو سود خوری کی عین ضد اور معاشرہ پر اس کے اثرات سود کے اثرات کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ مثلاً سود خوری سے سود خوار میں حرص و طمع، بخل اور زر پرستی جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں اور سود دینے والے میں سود خور کے خلاف نفرت بغض اور حسد پیدا ہوتا ہے اور یہ صورت حال معاشرہ میں طبقاتی تقسیم پیدا کرکے کسی بڑے فتنہ کا پیش خیمہ بن جاتی ہے جبکہ صدقہ و خیرات دینے سے دینے والے کے دل میں بخل کے بجائے سماحت اور خوشی پیدا ہوتی ہے تو لینے والے کے دل میں احسان مندی اور شکرگزاری کے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ جس سے پورے معاشرے میں ایک دوسرے سے ہمدردی، مروت اور اخوت، اتفاق اتحاد اور محبت جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں اور یہی چیز ایک اسلامی معاشرہ کی روح رواں ہے اور اسی لیے کتاب و سنت میں انفاق فی سبیل اللہ پر بہت زور دیا گیا ہے اور زکوٰۃ فرض کی گئی ہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ متقین کی پہلی صفت یہ ہے کہ خواہ خوشحالی کا دور ہو یا تنگدستی کا وہ ہر حال میں اپنی حیثیت اور وقت کے تقاضا کے مطابق اللہ کی راہ میں ضرور خرچ کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے کئی مواقع پر غریب مسلمانوں کو صدقہ کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ (اتقوا النار ولو بشق تمرۃ) (بخاری، کتاب الأدب، باب طیب الکلام۔۔) یعنی دوزخ کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ دے کر بچو اور اس ترغیب سے مقصود بخل اور حرص جیسی مہلک بیماریوں کا علاج ہے۔ [١٢٠] غصہ پی جانااورمعاف کرنا الگ الگ صفات ہیں :۔ متقین کی دوسری صفت یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ غصہ کو پی جاتے اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں، غصہ ہمیشہ ایسے شخص پر آتا ہے جو اپنے سے کمزور ہو اور انسان اس سے انتقام لینے کی قدرت رکھتا ہو۔ ایسے وقت میں غصہ کو برداشت کر جانا فی الواقعہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ بہادر وہ نہیں جو کسی دوسرے کو لڑائی سے پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کو برداشت کر جائے۔ نیز ایک دفعہ ایک آدمی نے آپ سے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ’’مجھے کچھ وصیت فرمائیے‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’غصہ نہ کیا کرو۔‘‘ اس نے بار بار وصیت کی درخواست کی اور آپ ہر بار یہی جواب دیتے رہے کہ غصہ نہ کیا کرو۔ (بخاری۔ کتاب الادب، باب الحذر من الغضب) غصہ پی جانا اور معاف کردینا دو الگ الگ کام ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص وقتی طور پر غصہ پی جائے اور بات دل میں رکھے اور پھر کسی وقت اس سے انتقام لے لے۔ گویا غصہ پی جانے کے بعد قصور وار کو معاف کردینا ایک الگ اعلیٰ صفت ہے اور اللہ ایسے ہی نیکو کار لوگوں سے محبت رکھتا ہے جس میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہوں۔