بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ
بشارت دینے والا اور ڈرانے والا، تو ان کے اکثر نے منہ موڑ لیا، سو وہ نہیں سنتے۔
[٢] قرآن کی چار صفات کا ذکر :۔ یہ تمہیدی آیات ہیں جن میں قرآن کی چند صفات بیان کرکے اسے متعارف کرایا جارہا ہے اس کی پہلی صفت یہ ہے کہ یہ نہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا کلام ہے نہ ہی کسی دوسرے آدمی کا ہے بلکہ یہ اس ہستی کی طرف سے نازل شدہ ہے جو رحمان و رحیم ہے۔ اپنی مخلوق پر بے انتہا مہربان ہے اور یہ اس کی رحمت ہی کا تقاضا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی فلاح و سعادت کے لیے قرآن جیسی عظیم نعمت نازل فرمائی ہے اور اگر کوئی شخص اس نعمت سے فائدہ نہیں اٹھاتا تو وہ انتہائی ناشکرا اور ناقدر شناس ہے۔ اس کتاب کی دوسری صفت یہ ہے کہ اس کی آیات کو کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ نئے سے نئے پیرائے میں بار بار بیان کیا گیا ہے تاکہ سمجھنے میں کوئی ابہام، کوئی پیچیدگی اور گنجلک باقی نہ رہے۔ نیز اس میں سینکڑوں قسم کے مضامین ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ کرکے پیش کئے گئے ہیں۔ اس کی تیسری صفت یہ ہے کہ یہ قرآن عربی زبان میں ہے۔ تاکہ اس کے پڑھنے پڑھانے اور سمجھنے سمجھانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے اور قوم کے لیے نافہمی کا کوئی عذر باقی نہ رہے۔ تاہم اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو اہل علم و دانش ہیں۔ جہالت کی بنا پر اڑ جانے والے اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اس کی چوتھی صفت یہ ہے کہ یہ کتاب نہ کوئی افسانوی تخیل ہے اور نہ ہی انشا پردازی کا نمونہ ہے بلکہ یہ تمام دنیا کو خبردار کر رہی ہے کہ اس کی تعلیم کو مان لینے کے نتائج شاندار اور نہ ماننے کے نتائج نہایت ہولناک ہیں۔