م
حۤم۔
[١] سرداران قریش دعوت اسلام کو نیچا دکھانے کے لیے کئی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے تھے۔ انہیں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ کسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین مکہ میں بالفاظ دیگر حق و باطل میں سمجھوتہ ہوجائے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرم کے ایک گوشہ میں اور چند سرداران قریش دوسرے گوشہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ ایک معزز قریشی سردار، نہایت بہادر اور فطرتاً نیک دل انسان تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ میں ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے وہ ان میں سے ایک نہ ایک ضرور مان لے گا اور اگر اس نے قبول کرلی تو ہم اس مصیبت سے نجات حاصل کرسکیں گے۔‘‘ اس کے ساتھیوں نے کہا : ابو الولید! آپ ضرور یہ کام کیجئے۔ چنانچہ عتبہ وہاں سے اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آبیٹھا اور کہنے لگا : ’’بھتیجے! ہماری قوم میں جو تفرقہ پڑچکا ہے اسے آپ جانتے ہیں۔ اب میں چند باتیں پیش کرتا ہوں ان میں سے جو بھی چاہو پسند کرلو۔ مکہ کی ریاست چاہتے ہو یا کسی بڑے گھرانے میں شادی یا مال و دولت؟ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی جن بھوت آتا ہے تو اس کے علاج کی بھی ذمہ داری ہم قبول کرتے ہیں۔ ہم یہ سب کچھ مہیا کرسکتے ہیں اور اس پر بھی راضی ہیں کہ مکہ تمہارا زیر فرمان ہو مگر تم ان باتوں سے باز آجاؤ‘‘ عتبہ بن ربیعہ کی آپ کو پیش کش اور آپ کا جواب (حق وباطل میں سمجھوتہ کی کوشش) :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عتبہ کی باتیں خاموشی سے سنتے رہے۔ جب عتبہ خاموش ہوگیا۔ تو آپ نے عتبہ سے کہا کہ جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے۔ اب میرا جواب سن لو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب باتوں کے جواب میں اسی سورۃ کی چند ابتدائی آیات پڑھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر پہنچے ﴿فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ ﴾ تو عتبہ کے آنسو بہنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اسے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا تھا کہ کہیں ایسا عذاب اسی وقت نہ آن پڑے۔ پھر وہ چپ چاپ وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔ مگر اب وہ پہلا عتبہ نہ رہا تھا۔ جاکر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا : ’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کلام پیش کرتا ہے وہ شاعری نہیں کچھ اور ہی چیز ہے۔ تم اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس میں تمہاری ہی عزت ہے اور اگر وہ خود ہی ختم ہوگیا تو یہی کچھ تم لوگ چاہتے ہو‘‘ اس کے ساتھیوں نے کہا : ابو الولید! معلوم ہوتا ہے کہ تم پر بھی اس کا جادو چل گیا۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٦ ص ١٥٩ تا ١٦١)