يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! مت کھاؤ سود کئی گنا، جو دگنے کیے ہوئے ہوں اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔
[١١٨]سود کی حرمت میں تدریج:۔سود کی حرمت کاذکر سورہ بقر ہ کی آیات ۲۷۸۔۲۷۹ میں گزرچکاہے ۔ یہ آیت اس سے پہلے کی نازل شدہ ہے ۔ جبکہ مسلمانوں کوسود کی قباحتوں سے متعارف کرانا اس سے نفرت دلانااورا س کو یکسر چھوڑدینے کےلیے ذہنوں کوہموار کرنامقصود تھا۔ اس مقام پر سود کےذکر کی وجہ سےمناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ احد میں ابتداءً مسلمان جو شکست پر مامور تھا،اس نے جب فتح کےآثار دیکھے تومال کے طمع سےمغلوب ہوگئےا و ر اپنے کام کوتکمیل تک پہنچانے کےبجائے غنیمت لوٹنے لگ گئے اللہ تعالیٰ نےاس صورت حال کی اصلاح کےلیے زرپرستی کے سرچشمے پر بند باندھنا ضروری سمجھا کیونکہ سود کاخاصہ یہ ہے کہ وہ سودخوار میں حرص وطمع وبزدلی،خود غرضی اور زرپرستی جیسی رذیل صفات پیدا کردیتاہے اور سوداداکرنے والوں میں نفرت غصہ، بغض وحسد جیسی صفات رذیل صفات پیدا کردیتاہے اور سود اداکرنے والوں میں نفرت ، غصہ ، بغض وحسد جیسی صفات پیدا ہوجاتی ہیں ،ا ورا یسی صفات ایک اسلامی معاشرہ کےلیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں اور جہاد کی روح کےمنافی ہیں اور آخرت میں اخروی عذاب کا سبب بنتی ہیں ۔ا نہیں وجوہ کی بناپر سود کوبالآخر مکمل طور پر حرام قرار دیاگیاہے ۔ (۱۱۸ الف) سیدالاستغفار:۔ اللہ کی مغفرت کی طرف دوڑ کر جانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے کام بلا تاخیر کئے جائیں، جو اللہ کی مغفرت کا سبب بن سکتے ہیں اور وہ تمام اعمال صالحہ ہیں۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا بذات خود اللہ کی بخشش کا بہت بڑا سبب ہے۔ استغفار کے لیے کتاب و سنت میں بہت سی دعائیں منقول ہیں اور ایک دعائے استغفار کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سید الاستغفار فرمایا : آپ نے یہ استغفار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سکھلایا اور صبح و شام نمازوں کے بعد یہ استغفار پڑھا کرتے تھے۔ اس استغفار کے الفاظ یہ ہیں: (اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لاَاِلَہَ الاَّاَنْتَ خَلَقْتَنِی وَاَنَا عَبْدُکَ وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَااسْتَطَعْتُ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّمَا صَنَعتُ اَبُوْء لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُوْءُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْ لیْ فِاِنَّہُ لاَیَغْفِرُ الذُّنُوْبَ الاَّ اَنْتَ) ترجمہ : ’’اے اللہ تو ہی میرا پروردگار ہے۔ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ اور غلام ہوں اور جہاں تک مجھ سے ہوسکتا ہے۔ میں تیرے عہد اور تیرے وعدے پر قائم ہوں اور جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے برے پہلو سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ میں اپنے آپ پر تیری نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں۔ لہٰذا تو مجھے معاف فرما دے کیونکہ تیرے بغیر کوئی بھی گناہ معاف نہیں کرسکتا۔‘‘ اور جنت کی طرف دوڑ کر آنے کا بھی یہی مقصد ہے کہ ایسے کام کئے جائیں جن سے جنت کا حصول ممکن ہوجائے اور جنت کی صفت یہ بیان فرمائی کہ اس کا عرض آسمانوں اور زمین جیسا ہے اور عرض کا ایک معنی تو چوڑائی ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب آسمانوں اور زمین کی وسعت کا اندازہ کرنا انسان کی بساط سے باہر ہے تو پھر وہ جنت کی وسعت کا کیا اندازہ کرسکے گا۔ جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے گویا اس سے مقصود جنت کی ایسی لامحدود وسعت کا اظہار ہے جو انسان کے سان و گمان میں بھی نہیں آسکتی۔ جنت کی قدروقیمت:۔ عرض کا دوسرا معنی قدر و قیمت ہے۔ کہتے ہیں اشتریت المتاع بعرض اور ان معنوں میں یہ لفظ قرآن میں بھی مستعمل ہے۔ جب دنیا کی بے ثباتی کا اظہار مقصود ہو تو دنیوی سازو سامان کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا معنی یہ ہوگا کہ اس جنت کی طرف دوڑ کر آؤ جس کے مقابلہ میں یہ سارے آسمان اور زمین ہیچ ہیں اور جنت کی قدر و قیمت ان سب سے بڑھ کر ہے۔ ضمناً ایسی آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنت اور دوزخ تیار کی جاچکی ہے اور اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو اس بات کے قائل نہیں۔