ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ
جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ، اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو، پس وہ تکبر کرنے والوں کی بری جگہ ہے۔
[٩٧] تکبر کی تعریف اور متکبرین کا انجام :۔ ان دو آیات سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ قبول حق سے انکار کی سب سے بڑی وجہ تکبر ہوتی ہے۔ اور دوسری یہ کہ دوزخ میں سب سے زیادہ بھرتی متکبرین کی ہوگی۔ اور انہی باتوں کی مزید تفاصیل احادیث میں بھی ملتی ہے : ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی بھر بھی تکبر ہو‘‘ ایک شخص کہنے لگا : ہر انسان اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، اس کی جوتی اچھی ہو۔ (کیا یہ تکبر ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ خوب صورت ہے، خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو یہ ہے کہ تو حق کو ٹھکرا دے اور لوگوں کو حقیر سمجھے‘‘ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب تحریم الکبر وبیانہ) ٢۔ حارثہ بن وہب خزاعی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تمہیں اہل جنت کی خبر نہ دوں؟ وہ ایسے کمزور اور گمنام لوگ ہیں کہ اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم پوری کردے۔ اور کیا میں تمہیں اہل دوزخ کے متعلق نہ بتاؤں۔ ہر اکھڑ مزاج، بدخلق اور متکبر دوزخی ہوتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب الکبر) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس شخص کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب تحریم الکبر و بیانہ)