مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا بَل لَّمْ نَكُن نَّدْعُو مِن قَبْلُ شَيْئًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكَافِرِينَ
اللہ کے سوا۔ کہیں گے وہ ہم سے گم ہوگئے، بلکہ ہم اس سے پہلے کسی چیز کو نہیں پکارتے تھے۔ اسی طرح اللہ کافروں کو گمراہ کرتا ہے۔
[٩٥] اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور وہ دونوں ہی درست ہیں۔ ایک جو ترجمہ سے واضح ہے کہ مشرک لوگ سب کچھ بھول بھلا کر اپنے شرک سے ہی یکسر انکار کردیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ جن چیزوں کو ہم دنیا میں پکارتے رہے فی الواقع ان کے اختیار میں کچھ بھی نہ تھا اور وہ لاشی محض تھے۔ یہ ہماری ہی غلطی تھی کہ ہم انہیں ''کوئی چیز'' سمجھتے رہے۔ [٩٦] مشرکین کی بدحواسی۔ ایک ہی سوال کے متضاد جوابات :۔ اس جملہ میں مشرکوں کی بدحواسی کا ذکر کیا گیا ہے کہ ایک ہی سوال کے مختلف اور متضاد جواب دیتے جائیں گے۔ سوال یہ تھا کہ آج وہ تمہارے شریک کہاں ہیں جنہیں تم اللہ کے شریک بنایا کرتے تھے اس کا ایک جواب وہ تو یہ دیں گے کہ ہمیں تو کچھ یاد نہیں پڑتا کہ ہم اللہ کے سوا کسی کو پکارا کرتے تھے اور اگر کوئی ایسی بات تھی بھی تو وہ ہمیں آج دکھائی نہیں دے رہے۔ یا ہماری یاد سے محو ہوچکے ہیں۔ دوسرا جواب یہ کہ وہ صاف مکر جائیں گے کہ ہم کب اللہ کے سوا کسی کو پکارا کرتے تھے۔ اور تیسرا جواب وہ ہے جو الگ کئی مقامات پر مذکور ہے کہ عبادت کرنے والے اپنے معبودوں پر الزام لگائیں گے کہ یا اللہ ! ان بڑے بزرگوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا لہٰذا انہیں دگنا عذاب دے۔ اس جواب میں وہ اپنے جرم کا پورا اعتراف کر رہے ہوں گے۔ یعنی سوال ایک ہے مگر جواب میں کیسی گومگو کی حالت ہے کبھی انکار ہے اور کبھی اعتراف۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی ہوگی کہ ہم کون سا جواب دے کر اس پر ڈٹ جائیں جس کی وجہ یہ ہے کہ باطل کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی۔