سورة غافر - آیت 60

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٨] دعا اور عبادت ایک ہی چیز ہے بلکہ دعا عبادت کا مغز ہے۔ اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دعا یا کسی کو حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارنا اور عبادت ہم معنی الفاظ ہیں۔ اس آیت کے پہلے جملہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مجھے پکارا کرو میں تمہاری پکار کو قبول کرتا ہوں اور دوسرے جملہ میں فرمایا کہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں۔ جو اس آیت پر واضح دلیل ہے کہ دعا اور عبادت ایک ہی چیز ہے پھر اس مفہوم کی تائید احادیث صحیحہ سے بھی ہوجاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ﴿الدُّعَاءُ ھُوَالْعِبَادَۃُ﴾ (یعنی پکارنا ہی اصل عبادت ہے) اور ایک مرتبہ یوں فرمایا : (الدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃ) (یعنی دعا ہی عبادت کا مغز یا اصل عبادت ہے) (ترمذی، ابو اب التفسیر زیر آیت ہذا) دعا عبادت کیسے ہے؟ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ دعا عبادت کیسے ہے؟ دعا کرنے والا دعا اس وقت کرتا ہے جب کسی چیز کے حصول یا کسی مصیبت کے دفعیہ کے ظاہری اسباب مفقود ہوں۔ اور جس کو پکارتا ہے وہ یہ سمجھ کر پکارتا ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہے میری پکار کو سن رہا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ اس کا باطنی اسباب پر اتنا تصرف ضرور ہے کہ وہ میری تکلیف کو رفع کرسکتا ہے یا میری حاجت پوری کرسکتا ہے۔ گویا پکاری جانے والی ہستی کا ایک تو عالم الغیب نیز سمیع و بصیر ہونا ضروری ہوا۔ اور یہ صفت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی۔ دوسرے جب تک اسباب کائنات میں اس کا تصرف تسلیم نہ کیا جائے اس سے دعا کرنا ایک فعل عبث قرار پاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات کو کسی دوسری ہستی میں تسلیم کرنا اسے اللہ کا ہمسر یا شریک سمجھنا ہے اور یہی چیز عین شرک ہے۔ اور جس شخص نے اللہ کے علاوہ کسی دوسری ہستی کو الوہیت کا یہ مقام دے دیا تو وہ اس کے مقابلہ میں از خود بندگی کے مقام پر اتر آیا گویا پکاری جانے والی ہستی اس کی معبود بن گئی اور یہ پکارنے والا عبادت گزار اور اس کی پکار عین عبادت ہوئی۔ اللہ مانگنے سے خوش اور نہ مانگنے سے ناراض ہوتا ہے اور یہی عبادت کا خاصہ ہے : واضح رہے کہ انسان اللہ سے دعا کرتا ہے اور وہ کبھی قبول ہوتی ہے کبھی نہیں ہوتی، کبھی بہت مدت بعد جا کر ہوتی ہے تو اس کے کچھ آداب ہیں اور کچھ اسباب ہیں اور کچھ موانع ہیں۔ جن کی تفصیل احادیث میں مذکور ہے۔ یہاں صرف یہ بات ذہن نشین کرانا مطلوب ہے کہ دعا قبول نہ بھی ہو تو بھی اس کا بہت فائدہ ہے۔ کیونکہ دعا بذات خود عبادت ہے۔ اور جتنی دیر اس نے دعا مانگنے میں لگائی وہ مدت گویا اس نے عبادت ہی میں گزار دی۔ لہٰذا ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم اللہ سے دعا مانگتے رہیں۔ مانگتے رہیں۔ اس کا قبول کرنا نہ کرنا، یا بدیر قبول کرنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تابع ہے۔ دوسری بات جو اس آیت سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ سے مانگنا اور مانگتے رہنا عین تقاضائے بندگی ہے۔ اور جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا تو یہ بات عبادت سے انکار یا تکبر کی علامت ہے۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ مانگنے سے خوش اور نہ مانگنے سے ناراض ہوتا ہے اور یہ سب مفہوم عبادت کے لفظ میں شامل ہیں۔ [٧٩] یہ ان کے تکبر کی سزا ہوگی۔ قیامت کے دن خوب جوتے کھائیں گے اور ذلت اور رسوائی کے ساتھ جہنم میں پھینک دیئے جائیں گے۔