وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلَا الْمُسِيءُ ۚ قَلِيلًا مَّا تَتَذَكَّرُونَ
اور نہ اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوتا ہے اور نہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور نہ وہ جو برائی کرنے والا ہے، بہت کم تم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
[٧٦] ایک دنیا دار اور متقی کے کردار کا موازنہ :۔ یہ بعث بعد الموت پر دوسری دلیل ہے۔ یعنی ایک شخص اپنا تمام طرز زندگی وحی الٰہی کی روشنی میں استوار کرتا ہے۔ اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے ہر طرح کے مصائب برداشت کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ پھر اپنی زندگی اور اپنی خواہشات پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کرتا ہے جو حکم الٰہی کے مطابق ضروری تھیں۔ ہمیشہ راست بازی اور دیانتداری سے کام لیتا ہے۔ کسی کو نہ فریب دیتا ہے نہ کسی پر زیادتی کرتا ہے اور ایک شریف انسان کی طرح اللہ سے ڈرتے ہوئے محتاط زندگی گزار رہا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کے پاس تقلید آباء اور جہالت کی تاریکیوں کے سوا کچھ نہیں۔ اپنے نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے وہ لوگوں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتا ہے۔ اس کی زندگی کا اصول مفاد پرستی ہوتا ہے۔ جس کی خاطر وہ ہر طرح کی زیادتی کرنے پر ہر وقت آمادہ رہتا ہے۔ پھر اس کے سامنے اللہ کے حضور جواب دہی کا تصور ہوتا ہی نہیں۔ اس کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ جس طرح سے بھی اور جتنی بھی دنیا اکٹھی کرلی جائے اور عیش و عشرت کرلی جائے بس وہی غنیمت ہے۔ تو بتاؤ کہ کیا ان دونوں کا انجام ایک جیسا ہی ہونا چاہئے۔ کہ دونوں مر کر مٹی ہوجائیں۔ نہ نیک انسانوں کو ان کے اچھے اعمال کا صلہ ملے اور نہ بدکردار لوگوں کو ان کی کرتوتوں کی سزا ملے؟ اور اگر تمہارے خیال میں یہ دونوں شخص ایک جیسے نہیں اور دونوں کا انجام ایک جیسا نہ ہونا چاہئے تو پھر ضروری ہے کہ انسان کو دوسری زندگی دی جائے جس میں اسے اس کے اعمال کا اچھا یا برا بدلہ دیا جاسکے۔ گویا اصل دلیل کا ماحصل یہ تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے اور دوسری دلیل کا ماحصل یہ ہے کہ ایسا ہونا چاہئے۔