لَا جَرَمَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْآخِرَةِ وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللَّهِ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ
کوئی شک نہیں کہ یقیناً تم مجھے جس کی طرف بلاتے ہو اس کے لیے کسی طرح پکارنا نہ دنیا میں (درست) ہے اور نہ آخرت میں اور یہ کہ یقیناً ہمارا لوٹنا اللہ کی طرف ہے اور یہ کہ یقیناً حد سے بڑھنے والے، وہی آگ میں رہنے والے ہیں۔
[٥٦] اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ پہلا تو وہی مطلب ہے جو ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کو نہ دنیا میں یہ حق پہنچتا ہے نہ آخرت میں کہ ان کی خدائی تسلیم کرنے کے لئے لوگوں کو دعوت دی جائے۔ تیسرا یہ کہ انہیں تو لوگوں نے زبردستی خدا بنا رکھا ہے ورنہ وہ خود نہ اس دنیا میں خدائی کے مدعی ہیں، نہ آخرت میں یہ دعویٰ لے کر اٹھیں گے کہ ہم بھی تو خدا تھے ہمیں کیوں نہ مانا گیا۔ [٥٧] اگرچہ ہر کام میں حد اعتدال سے آگے نکل جانے کو اسراف کہہ سکتے ہیں مگر یہاں مُسْرِفِیْنَ سے مرادوہ لوگ ہیں جو عاجز مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے اختیارات و تصرفات میں شریک بنا لیتے ہیں۔ ایسے مسرفین ہی وہ دوزخی ہیں جنہیں کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔