وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِن قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِّمَّا جَاءَكُم بِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَن يَبْعَثَ اللَّهُ مِن بَعْدِهِ رَسُولًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ
اور بلاشبہ یقیناً اس سے پہلے تمھارے پاس یوسف واضح دلیلیں لے کر آیا تو تم اس کے بارے میں شک ہی میں رہے، جو وہ تمھارے پاس لے کر آیا، یہاں تک کہ جب وہ فوت ہوگیا تو تم نے کہا اس کے بعد اللہ کبھی کوئی رسول نہ بھیجے گا۔ اسی طرح اللہ ہر اس شخص کو گمراہ کرتا ہے جو حد سے بڑھنے والا، شک کرنے والا ہو۔
[٤٨] یوسف علیہ السلام کے متعلق افراط وتفریط کی انتہا :۔ یہ بھی اس مرد مومن کی تقریر کا حصہ ہے۔ اس نے درباریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک مصر میں یوسف علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ جن کی حسن تدبیر سے یہ ملک سات سالہ قحط کے دور میں امن کے ساتھ گزر بسر کرتا رہا اور آس پاس کے ملکوں کو بھی غلہ مہیا کرتا رہا جن کے پاکیزہ سیرت و اخلاق سے بادشاہ مصر اس قدر متاثر ہوا تھا کہ اس نے حکومت ہی سیدنا یوسف علیہ السلام کے حوالہ کردی تھی اور جن کا دور حکومت عدل و انصاف کے لحاظ سے تم بہترین دور تسلیم کرتے ہو لیکن ان سب باتوں کے باوجود ان کے جیتے جی تم شک و شبہ میں ہی پڑے رہے اور ان پر ایمان نہ لائے۔ یہ تمہاری ایک انتہا تھی۔ پھر جب وہ فوت ہوگئے تو تم نے ان کی شان یوں بڑھا چڑھا کر بیان کرنا شروع کی کہ یوں کہنے لگے کہ اب سیدنا یوسف علیہ السلام جیسا رسول کہاں آئے گا ؟ اور یہ خیال کرکے باقی جو انبیاء آئے انہیں جھٹلانا شروع کردیا۔ یہ تمہاری دوسری انتہا تھی۔ اور آج تم سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی نبوت و رسالت کا بھی انکار کر رہے ہو۔ وہ بھی تمہاری غلط روش تھی اور یہ موجودہ روش بھی غلط ہے۔ وہ بھی حق کا انکار تھا، یہ بھی حق کا انکار ہے۔ اس وقت بھی تم شک میں پڑے رہے اور انب بھی شک میں پڑے ہوئے ہو۔ ایسے ہی لوگوں کے حق میں گمراہی لکھی ہوتی ہے۔