وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَىٰ وَلْيَدْعُ رَبَّهُ ۖ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ
اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور وہ اپنے رب کو پکارلے، بے شک میں ڈرتا ہوں کہ وہ تمھارا دین بدل دے گا، یا یہ کہ زمین میں فساد پھیلادے گا۔
[٣٤] فرعون کی گیدڑ بھبکی :۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والوں میں کمی ہونے کے بجائے ان کی تعداد بڑھتی ہی گئی تو فرعون نے سوچا کہ اب اس مصیبت کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہی کو قتل کردیا جائے۔ لیکن اس کے درباریوں نے جو صحیح صورت حال سے واقف ہوچکے تھے اسے اس کام سے منع کردیا کہ کہیں ملک میں کوئی بڑی بغاوت نہ اٹھ کھڑی ہو، تو ان درباریوں کو فرعون نے یہ جواب دیا ہو کہ اب یہ کام کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا۔ لہٰذا مجھے یہ کام کرنے سے مت روکو۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے کسی نے بھی روکا نہ ہو مگر وہ محض اپنی بہادری جتلانے کے لئے یہ بات کہہ رہا ہو۔ مگر چونکہ وہ خود بھی دل میں ڈرا اور سہما ہوا تھا اس لئے وہ اس طرح بات کر رہا تھا۔ ورنہ اگر وہ خود خائف نہ ہوتا اور اس کام کا ارادہ کرلیتا تو اسے کون روکنے والا تھا۔؟ [٣٥] دین سے مراد تمدن اور ملکی نظام ہے :۔ یہاں دین سے مرادصرف سورج دیوتا یا ہبل کی پوجا ہی نہیں بلکہ پورے کا پورا نظام سلطنت اور نظام تمدن ہے۔ یعنی فرعون کو اصل خطرہ تو یہ تھا کہ کہیں اس ملک کی فرمانروائی اس سے چھن نہ جائے۔ مگر اس نے اس بات کو مکار سیاسی لیڈروں کے انداز میں پیش کیا کہ تمہارا دین، جس سے تمہیں محبت ہے۔ وہی نہ بدل ڈالے، جیسے ہمارے ہاں سیاسی لیڈر ایسے بیان دیتے رہتے ہیں کہ عوام یہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد نئے انتخابات کرائے جائیں۔ حالانکہ عوام بیچارے آئے دن کے انتخابات سے پہلے ہی بیزار بیٹھے ہوتے ہیں۔ [٣٦] یعنی اگر وہ اس نظام کو بدل نہ سکے تب بھی یہ خطرہ ضرور ہے کہ ملک میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔ لہٰذا تحفظ امن عامہ کی خاطر ضروری ہے کہ جیسے بھی بن پڑے موسیٰ کو قتل کرکے ان آنے والی پریشانیوں کا خاتمہ کردیا جائے۔