أَوَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور کیا انھوں نے نہیں جانا کہ بے شک اللہ رزق فراخ کردیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اور تنگ کردیتا ہے۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔
[٧٠] رزق کا انحصار مشیئت الٰہی پر ہے :۔ نشانیوں سے مرادیہ ہے کہ رزق کی اس کمی بیشی کی حکمتوں پر غور صرف اہل ایمان ہی کرتے ہیں۔ کیونکہ رزق کے حصول کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہے جس کا انحصار محض اللہ کی مرضی اور حکمت پر ہے۔ رزق کا انحصار نہ عقل پر ہے نہ علم پر، نہ قابلیت اور تجربہ پر، نہ جسمانی قوت اور استعداد پر۔ سب انسان ہی یہ چاہتے ہیں اور اس کام کے لئے بھرپور کوشش بھی کرتے ہیں کہ انہیں زیادہ سے زیادہ مال و دولت حاصل ہو۔ الا ماشاء اللہ مگر تھوڑے ہی لوگ ہوتے ہیں جو آسودہ حال ہوتے ہیں زیادہ ایسے ہی ہوتے ہیں جو رزق کی تنگی کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔ اگر رزق کا انحصار عقل پر ہوتا تو بے وقوف بھوکے مر جاتے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر عقلمند تو پریشان حال ہوتے ہیں جبکہ عقل سے کورے لوگ مال و دولت میں کھیلتے ہیں۔ اسی طرح بسا اوقات راست باز اور نیک لوگ پریشان حال ہوتے ہیں۔ جبکہ ظالم اور اللہ کے نافرمانوں کو وافر مقدار میں رزق دیا جاتا ہے۔ تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ جس کو مال ودولت ملا ہے اللہ اس سے خوش ہے۔ قطعاً غلط ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ رزق کی تقسیم کے لئے ضابطہ الٰہی دوسرا ہے اور اس کی حکمتیں قرآن کریم میں جا بجا مذکور ہیں۔