ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اللہ نے ایک آدمی کی مثال بیان کی جس میں ایک دوسرے سے جھگڑنے والے کئی شریک ہیں اور ایک اور آدمی کی جو سالم ایک ہی آدمی کا ہے، کیا دونوں مثال میں برابر ہیں؟ سب تعریف اللہ کے لیے ہے، بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے۔
[٤٤] ایک انسان کے مختلف اور متشاکس آ قا کون کون سے ہیں؟ تشاکس کے معنی بخل، تند خوئی اور بدمزاجی کی وجہ سے ایک دوسرے سے اپنے اپنے حق کے لئے کھینچا تانی کرنا ہے۔ مثال یہ ہے کہ ایک غلام کے ایک نہیں بلکہ متعدد آقا ہیں۔ اور ہر ایک کا جی یہ چاہتا ہے کہ وہ غلام کو اپنے ہی کام میں لگائے رکھے اور جتنا اس کا حق بنتا ہے اس سے زیادہ اس سے محنت لے۔ دوسروں کی خدمت خواہ وہ کرسکے یا نہ کرے۔ پھر وہ تند خو اور بدسرشت بھی ہیں ان میں سے ہر شخص اس غلام سے ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتا ہے اور بدسلوکی سے بھی پیش آتا ہے۔ تو بتاؤ اس غلام کا کیا حال ہوگا اور وہ کس مشکل اور مصیبت میں پڑا ہوگا اور دوسرے غلام کا مالک صرف ایک ہی ہے تو بتاؤ ان دونوں غلاموں کی حالت ایک جیسی ہوسکتی ہے؟ اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایسے بدسرشت لوگ جو اپنے مشترکہ غلام سے اپنا زیادہ سے زیادہ حق وصول کرنے کے لئے جھگڑتے ہیں۔ غلام کو اس کا حق دینے میں سخت بخیل ہوتے ہیں۔ ایسے غلام کو نہ کوئی صرف اپنا غلام سمجھتا ہے نہ اس کی خبر لیتا ہے نہ اس کے حقوق کا خیال رکھتا ہے۔ اور دوسرا غلام جو صرف ایک شخص کا ہو وہ اسے اپنا ہی غلام سمجھتا ہے اور اس کے حقوق کا بھی خیال رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی وہ غلام جس کا ایک ہی آقا ہو وہ بہتر ہوا۔ یہ مثال دراصل ایک مشرک اور ایک موحد کی مثال ہے۔ مشرک کئی معبودوں کا غلام ہوتا ہے۔ اسے یہ فکر بھی دامنگیر رہتی ہے کہ اگر ایک کی حاضری اور نذر و نیاز دے کر اس کو خوش کرنے کی کوشش کرے تو دوسرے کہیں بگڑ نہ بیٹھیں اور اسے کوئی گزند نہ پہنچا دیں۔ اسی کھینچا تانی میں وہ پریشان اور پراگندہ دل رہتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ایک موحد کو صرف ایک اکیلے اللہ کی رضا مندی مطلوب ہوتی ہے پھر چونکہ موحد اللہ کا ہی بن کر رہتا ہے اللہ بھی ہر آڑے وقت میں اس کی دستگیری فرماتا، مصائب سے نجات دیتا اور انعامات سے نوازتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں کی حالت ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ اور اسے سمجھنے کے لئے کسی لمبے چوڑے غور و فکر کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ اس مثال میں معبودوں سے مراد پتھر کے بت نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ان کا بخیلی، تند خوئی اور بدمزاجی سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ہی وہ اپنے حقوق کے لئے جھگڑا کرسکتے ہیں۔ لامحالہ ان سے مراد ایسے جیتے جاگتے آقا ہی ہوسکتے ہیں جو عملاً آدمی کو متضادا حکام دیتے ہیں اور فی الواقع اس کو اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا آقا تو انسان کا اپنا نفس ہے جو طرح طرح کی خواہشات اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ انہیں پورا کرے۔ دوسرے بے شمار آقا گھر میں، خاندان میں، برادری میں، قوم میں اور ملک کے معاشرے میں، مذہبی پیشواؤں میں، حکمرانوں اور قانون سازوں میں، کاروبار اور معیشت کے دائروں میں اور دنیا کے تمدن پر غلبہ رکھنے والی طاقتوں میں ہر طرف موجود ہیں جن کے متضاد تقاضے اور مختلف مطالبے ہر وقت آدمی کو اپنی اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں اور ان میں سے جس کا تقاضا پورا کرنے میں بھی وہ کوتاہی کرتا ہے وہ اپنے دائرہ کار میں اس کو سزا دیئے بغیر نہیں چھوڑتا۔ البتہ ہر ایک کی سزا کے ہتھیار الگ الگ ہیں۔ کوئی دل مسوستا ہے، کوئی روٹھ جاتا ہے، کوئی مقاطعہ کرتا ہے، کوئی دیوالیہ نکالتا ہے، کوئی مذہب کا وار کرتا ہے اور کوئی قانون کی چوٹ لگاتا ہے۔ اس پریشانی اور تنگی سے نکلنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ انسان صرف ایک اللہ کا بندہ بن جائے اور اللہ کے احکام میں کسی دوسرے کی قطعاً پروانہ کرے۔ یہی اس کے لئے سلامتی، اطمینان اور نجات کا راستہ ہے۔ [٤٥] الحمد للہ کے استعمال کا خاص موقع :۔ یہاں الحمدللہ کا استعمال ان معنوں میں ہوا ہے کہ بہت سے آقاؤں کے پرستار اس سوال کا جواب دیں تو بھی مرتے ہیں اور اگر نہ دیں تو بھی مرتے ہیں پھر اگر جواب نہ دیں تو گویا یہ ان کے خلاف مسکت دلیل ہوئی۔ اور اگر جواب دیں تو وہ یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ ان دونوں غلاموں کی حالت برابر ہے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ زیادہ آقا رکھنے والا غلام بہتر ہے۔ لہٰذا اللہ کا شکرہے کہ اتنی بات تو وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایک آقا رکھنے والا غلام ہی بہتر ہوسکتا ہے۔ پھر جب عملی زندگی کا وقت آتا ہے تو یہ سب باتیں بھول کر نادان بن جاتے ہیں۔