سورة الزمر - آیت 24

أَفَمَن يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَقِيلَ لِلظَّالِمِينَ ذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو کیا وہ شخص جو قیامت کے دن اپنے چہرے کے ساتھ بد ترین عذاب سے بچے گا (وہ جنتی جیسا ہوسکتا ہے؟) اور ظالموں سے کہا جائےگا چکھو جو تم کمایا کرتے تھے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٠] انسان کی عادت ہے کہ جب اس کے بدن پر کوئی ضرب پڑنے والی ہو تو سب سے پہلے وہ اپنے ہاتھوں سے اس کی روک تھام کرتا ہے یعنی پڑنے والے وار کی ہاتھوں سے مدافعت کرتا ہے۔ اور اگر حملہ شدید ہو اور ہاتھوں سے اسے روکا نہ جاسکتا ہو تو باقی بدن کے ہر حصے پر ضرب پڑنا گوار کرلیتا ہے لیکن جیسے بھی بن پڑے چہرے کو اس ضرب سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ قیامت کے دن ان کے ہاتھ تو بندھے ہوں گے اور بے بسی کا بھی یہ عالم ہوگا کہ اس عذاب کو مجبوراً انہیں اپنے چہروں پر برداشت کرنا پڑے گا۔ پھر ساتھ ہی انہیں یہ بھی کہا جائے گا کہ یہ تمہارے ہی اعمال کا بدلہ ہے۔ یہاں پھر سوال کا اگلا حصہ مخدوف ہے اور یہ جملہ یوں مکمل ہوتا ہے کہ کیا ایسا شخص اس مومن کی طرح ہوسکتا ہے جسے آخرت میں کوئی تکلیف اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہی نہ ہو بلکہ اسے اس دن ہر طرح سے راحت اور اطمینان میسر ہو؟