قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنبَأَهُم بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ
فرمایا اے آدم! انھیں ان کے نام بتا، تو جب اس نے انھیں ان کے نام بتا دیے، فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ بے شک میں آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں جانتا ہوں اور جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے تھے۔
[٤٥] جب فرشتوں کو آدم کے ہمہ علمی احاطہ کا علم ہوگیا اور انہوں نے اپنے عجز علمی کا اعتراف کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو وہ بات بتا دی جو وہ نہیں جانتے تھے اور وہ یہ تھی کہ انسان میں اگر فتنہ و شر کا پہلو ہے تو صلاح و خیر کا پہلو بھی موجود ہے اور صلاح و خیر کا پہلو غالب ہے۔ اسی لیے اسے خلیفہ بنایا جا رہا ہے اور وہ اپنے علمی کمال کی وجہ سے اس کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ اس قصہ سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ علم عبادت سے افضل ہے۔ عبادت کا تعلق صرف مخلوق سے ہے۔ جب کہ علم کا تعلق خالق و مخلوق دونوں سے اور سب سے بڑا عالم اور علیم تو خود اللہ تعالیٰ ہے۔ بلاشبہ انسان فرشتوں جیسی اور جتنی عبادت نہیں کرسکتا۔ تاہم علم کی بنا پر فرشتوں سے افضل اور مستحق خلافت قرار پایا۔