قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ ۖ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩
اس نے کہا بلاشبہ یقیناً اس نے تیری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کے مطالبے کے ساتھ تجھ پر ظلم کیا ہے اور بے شک بہت سے شریک یقیناً ان کا بعض بعض پر زیادتی کرتا ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور یہ لوگ بہت ہی کم ہیں۔ اور داؤد نے یقین کرلیا کہ بے شک ہم نے اس کی آزمائش ہی کی ہے تو اس نے اپنے رب سے بخشش مانگی اور رکوع کرتا ہوا نیچے گرگیا اور اس نے رجوع کیا۔
[٢٨] خُلَطَاء خَلِیْط کی جمع ہے اور خلیط کا معنی جزوی شریک کار ہے۔ یعنی ایسی کاروباری شراکت جس میں شریک کام کاج کے کچھ پہلوؤں میں تو آپس میں شریک ہوں اور کچھ پہلوؤں میں آزاد ہوں۔ مثلاً زید اور بکر دونوں کے پاس الگ الگ ریوڑ ہے جو ان کی اپنی اپنی ملکیت ہے لیکن ان کی حفاظت کے لئے جگہ مشترکہ طور پر کرایہ پر لے رکھی ہے۔ چرواہے کو مل کر معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ تو ایسے شریک ایک دوسرے کے خلیط کہلاتے ہیں۔ [٢٩] مدعی کا بیان سننے کے بعد جب مدعا علیہ خاموش رہا اور اس نے مدعی کے بیان پر کوئی تنقید یا اس کی کوئی تردید نہ کی تو سیدنا داؤد علیہ السلام نے سمجھا کہ مقدمہ کی نوعیت وہی ہے جو مدعی نے بیان کی ہے۔ لہٰذا آپ نے مدعی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : کہ واقعی مدعا علیہ نے اس قسم کا سوال کرکے تم پر ظلم اور زیادتی کی ہے۔ اسے ہرگز ایسا نہ کرنا چاہئے تھا۔ مگر اکثر دنیا دار شرکائے کار ایک دوسرے پر ایسی زیادتیاں کرتے ہی رہتے ہیں الا یہ کہ وہ ایماندار ہوں اور اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔ مگر ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ [٣٠] سیدنا داؤد اور اسرائیلیات :۔ جب فریقین مقدمہ آپ کا یہ فیصلہ سنتے ہی رخصت ہوگئے اور انہوں نے اس فیصلہ کے نفاذ کا بھی مطالبہ نہ کیا تو سیدنا داؤد علیہ السلام شش و پنج میں پڑگئے۔ سوچنے پر انہیں خیال آیا کہ یہ مقدمہ ان فریقین مقدمہ کا نہ تھا۔ بلکہ یہ ان کا اپنا مقدمہ تھا۔ اور یہ شخص آپ کے پاس تنبیہ کے طور پر آئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے خود سیدنا داؤد کو ایک آزمائش میں ڈال دیا تھا۔ اس خیال کے آتے ہی انہوں نے اپنے پروردگار سے معافی مانگنی شروع کردی۔ یہ آزمائش کیا تھی؟ اس کے متعلق اسرائیلیات میں بہت لغو اور شرمناک باتیں مذکور ہیں جنہیں ہمارے بعض مفسرین نے بھی نقل کردیا ہے کہ سیدنا داؤد علیہ السلام کی اپنی ننانوے بیویاں تھیں۔ اس کے باوجود آپ اپنے ایک فوجی افسر'' اور یاحتی'' کی بیوی پر عاشق ہوگئے اور بعض روایات کے مطابق آپ نے نعوذ باللہ اس سے زنا بھی کیا پھر اس فوجی افسر کو کسی مہم پر بھیج دیا جہاں وہ مارا گیا۔ یا آپ نے خود اسے قتل کروا دیا۔ اس کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کرلیا۔ اسرائیلیات میں جس طرح انبیاء کی عصمت کو داغدار کیا گیا ہے یہ اس کی ایک بدترین مثال ہے اسی لئے اکثر مفسرین نے اس واقعہ کی پرزور تردید کی ہے۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ تو یہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ایسی ہرزہ سرائی کرے گا میں اس کو ایک سو ساٹھ کوڑے لگاؤں گا۔ کیونکہ قذف کی حد اسی کوڑے ہے اور کسی نبی پر تہمت کی حد دگنی ہونی چاہئے۔ سیدنا داؤد کی آزمائش کیا تھی :۔ اب سوال یہ ہے معاملہ کی اصل نوعیت کیا تھی تو قرآن کے انداز بیان سے ہی اس کی حقیقت معلوم ہوجاتی ہے۔ مثلاً یہ کہ یہ مقدمہ سیدنا داؤد علیہ السلام کی خواہش نفس سے تعلق رکھتا تھا۔ اور اس مقدمہ کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی تعلق تھا جیسا کہ مدعی نے کہا تھا کہ وہ مجھے بات میں دبا لیتا ہے اور میں اس کے سامنے بات بھی نہیں کرسکتا۔ اور یہ بھی مسلّم ہے کہ سیدنا داؤد علیہ السلام کی ننانوے بیویاں تھیں۔ اور یہ بھی مدعی نے یوں کہا تھا کہ یہ میرا بھائی مجھ سے میری ایک دنبی بھی لے لینا چاہتا ہے۔ اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ میری دنبی اس نے مجھ سے چھین لی ہے۔ پھر فوراً ہی سیدنا داؤد علیہ السلام کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔ ان باتوں کی روشنی میں جو صورت حال سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ داؤد علیہ السلام نے اور یاحتی کی بیوی کے اچھے عادات و خصائل کا کہیں سے ذکر سن لیا تو انہیں دل میں خیال آگیا ہوگا کہ اگر یہ عورت میرے نکاح میں ہوتی تو کیا اچھا تھا۔ بس اس خیال کا آنا تھا کہ ادھر اللہ کی طرف سے گرفت ہوگئی۔ اگرچہ ایسے خیالات کا آنا عام لوگوں کے لئے کوئی قابلِ مؤاخذہ بات نہیں مگر انبیاء کا مقام اور ہے۔ لہٰذا ان کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر بھی اللہ تعالیٰ انہیں فوراً اور بروقت تنبیہ فرما دیتے ہیں۔ [٣١] اس آیت پر سجدہ ہے۔ یعنی جس طرح سیدنا داؤد علیہ السلام اللہ کے حضور رجوع ہوگئے تھے۔ عام مسلمانوں کو بھی اس کام میں ان کا ساتھ دینا چاہئے۔ البتہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سورۃ کا سجدہ کچھ تاکیدی سجدوں میں سے نہیں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ۔ باب ماجاء فی سجود القرآن)