يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا فَرِيقًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ يَرُدُّوكُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم ان میں سے کچھ لوگوں کا کہنا مانو گے، جنھیں کتاب دی گئی ہے، تو وہ تمھیں تمھارے ایمان کے بعد پھر کافر بنا دیں گے۔
[٨٩] یہودکامسلمانوں کوآپس میں لڑانے کی کوشش کرنا:۔ اس آیت میں ایک گروہ سے مراد یہود مدینہ ہیں۔ جنہیں مدینہ کے انصار (قبیلہ اوس خزرج) کا آپس میں بھائیوں کی طرح مل بیٹھنا اور شیروشکر ہوجانا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کو پھر آپس میں لڑا بھڑا کر ان میں عداوت ڈال دیں۔ جنگ بدر میں جب اللہ نے مسلمانوں کو عظیم فتح عطا فرمائی تو یہود کے عناد میں مزید اضافہ ہوگیا، ایک بڈھے یہودی شماس بن قیس کو بہت صدمہ پہنچا اس نے ایک نوجوان یہودی کو حکم دیا کہ وہ انصار کی مجالس میں جاکر جنگ بعاث کا ذکر چھیڑ دے اور اس سلسلہ میں دونوں جانب سے جو اشعار کہے گئے تھے وہ پڑھ پڑھ کر سنائے، نوجوان نے جاکر یہی کارنامہ سرانجام دیا۔ بس پھر کیا تھا ؟ تو تو میں میں سے کام شروع ہوا اور نوبت بایں جارسید کہ ایک فریق دوسرے سے کہنے لگا کہ ’’اگر تم چاہو تو ہم اس جنگ کو پھر جوان کرکے پلٹا دیں‘‘ ہتھیار ہتھیار کی آوازیں آنے لگیں اور مقابلہ کے لیے حرہ کا میدان بھی طے پا گیا اور لوگ اس طرح نکل کھڑے ہوئے۔ قریب تھا کہ ایک خوفناک جنگ چھڑ جاتی۔ اتنے میں کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی۔ آپ چند مہاجرین کو ساتھ لے کر فوراً موقع پر پہنچ گئے اور جاتے ہی فرمایا: مسلمانو میری موجودگی میں یہ جاہلیت کی پکار! اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام کی طرف ہدایت دی اور تمہارے دلوں کو جوڑ دیا۔ پھر اب یہ کیا ماجرا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پکار سن کر انصار کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ سمجھ گئے کہ وہ کس طرح شیطانی جال میں پھنس چکے تھے اور اس جال میں پھنسانے والے یہی ستم گر یہود تھے۔ پھر اوس و خزرج کے لوگ آپس میں گلے ملنے اور رونے لگے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی اس سازش کو ناکام بنا کر مسلمانوں کو تباہی سے بچا لیا۔ (ابن ہشام، ٥٥٥-٥٥٦) [٩٠] اس آیت کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ اگر تم یہودیوں کی بات ماننے لگو گے تو یہ تمہیں اسلام سے مرتد کرکے ہی دم لیں گے اور دوسرے یہ کہ تمہیں آپس میں لڑا بھڑا کر کافر بنا دیں گے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کا آپس میں لڑنا کفر ہے اور خطبہ حجۃ الوداع کے دوران آپ نے مسلمانوں کے عظیم اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : سن لو! تمہاری جانیں، تمہارے اموال اور تمہاری آبروئیں ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہیں۔ جیسے تمہارے اس دن کی، اس مہینہ میں اور اس شہر میں حرمت ہے۔ سن لو! میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مار کر کافر نہ بن جانا۔ (بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی لاترجعوا بعدی کفارا۔۔ الخ)