وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ
اور ہم نے اس کے فدیے میں ایک بہت بڑا ذبیحہ دیا۔
[٦٤] بیٹے کی قربانی کا فدیہ :۔ یہ ذبح عظیم ایک سینگ دار مینڈھا تھا جسے فرشتوں نے عین موقع پر لاکر حاضر کردیا اور کہا تھا کہ بیٹے کی جگہ اسے قربان کردو۔ یہی جانثار بیٹے کا فدیہ تھا جسے اللہ نے بھیجا تھا۔ اس لحاظ سے یہ عظیم قربانی تھی اور اس کے عظیم ہونے کی دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت جاری کردی کہ اسی تاریخ کو دنیا بھر کے اہل ایمان جانور قربان کریں۔ اور وفاداری اور جان نثاری کے اس عظیم واقعہ کی یاد تازہ کرتے رہیں۔ ذبیح اللہ سیدنا اسماعیل تھے یا سیدنا اسحاق علیہما السلام :۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ذبیح اللہ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام نہیں بلکہ سیدنا اسحق علیہ السلام تھے۔ ان کا نظریہ درج ذیل وجوہ کی رو سے درست معلوم نہیں ہوتا۔ ١۔ اسی سورۃ میں پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اس بیٹے کا ذکر آیا جو فی الواقع ذبیح اللہ تھے اور اس کے بعد سیدنا اسحق ؑکا ذکر اسی سورۃ کی آیت نمبر ١١٢ میں آرہا ہے۔ ٢۔ جب سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی بشارت دی گئی تو اس کے ساتھ حلیم کی صفت مذکور ہے۔ اور اس کا تعلق قربانی سے ہے۔ اور جب سیدنا اسحق علیہ السلام کی بشارت دی گئی تو اس کے ساتھ صفت علیم ذکر کی گئی (١٥: ٥٣، ٥١: ٢٨) اور اس صفت کا قربانی سے کچھ تعلق نہیں۔ نیز جب سیدنا اسحق علیہ السلام کی بشارت دی گئی تو ساتھ ہی یہ بتا دیا گیا کہ اسحق کے بعد ان کا بیٹا یعقوب بھی پیدا ہوگا۔ (١١: ٧١) اور ظاہر ہے جس بیٹے کے پوتے کی بھی بذریعہ وحی بشارت دی جاچکی ہو اس کے متعلق نوجوانی میں ہی قربانی کی وحی آنا محال ہے۔ کیونکہ پوتے کی بشارت پہلے دی جاچکی تھی۔ ٣۔ تورات میں یہ تصریح موجود ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنے اکلوتے اور محبوب بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور یہ بھی مسلم ہے کہ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام ، سیدنا اسحق علیہ السلام سے عمر میں بڑے تھے پھر سیدنا اسحق علیہ السلام سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی موجودگی میں اکلوتے کیسے ہوسکتے ہیں؟ ٤۔ قربانی کی یادگار اور اس سے متعلقہ رسوم بنی اسرائیل میں بطور وراثت مسلسل منتقل ہوتی چلی آئی ہیں حتیٰ کہ دور نبوی میں بھی موجود تھیں۔ یہ بات بھی اس بات کی قوی دلیل ہے کہ ذبیح اللہ سیدنا اسمٰعیل تھے نہ کہ سیدنا اسحق علیہ السلام۔ ٥۔ احسان کا وسیع مفہوم :۔ قربانی اور اس سے متعلقہ رسوم مثلاً سعی صفا و مروہ وغیرہ کا تعلق مکہ سے ہے۔ اور یہ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کا وطن تھا۔ سیدنا اسحق علیہ السلام کا اصل وطن ملک شام تھا۔