وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ
حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو۔
[٥٢] سیدنا ابراہیم سے قوم کا سوال و جواب :۔ میلہ سے واپسی پر قوم نے جب اپنے معبودوں کا یہ حشر دیکھا تو ان کا پارا بہت چڑھ گیا وہ پہلے ہی جانتے تھے کہ ہمارے بتوں کی مخالفت صرف ابراہیم ہی کرتا رہتا تھا اور وہ پیچھے بھی رہ گیا تھا۔ لہٰذا یہ اسی کا کارنامہ ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ان کے پاس دوڑتے آئے اور معبودوں سے اس طرح کی بدسلوکی کی وجہ پوچھی تو آپ علیہ السلام نے کہا کہ بڑے بت سے کیوں نہیں پوچھتے۔ جس کے کندھے پر کلہاڑا ہے۔ شاید اس نے ہی اپنے چھوٹوں سے ناراض ہو کر ان کا یہ حشر کردیا ہو۔ پھر ساتھ ہی کہہ دیا کہ یہ پتھر کے بے جان بت جو اپنی حفاظت نہیں کرسکتے تمہارا کیا سنوار سکتے ہیں اور تم لوگ جو ان کی عبادت کرتے ہو اس کا فائدہ کیا ہے۔ پھر یہ بت تم نے خود ہی تراش رکھے ہیں علاوہ ازیں تم کو اور اس پتھر کو بھی اللہ نے پیدا کیا ہے اور یہ بت تو مخلوق در مخلوق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور عبادت کی مستحق تو وہ ہستی ہوسکتی ہے جو خالق ہو۔ یہ مخلوق در مخلوق کیسے مستحق ہوسکتی ہے؟