وَلَقَدْ نَادَانَا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ
اور بلاشبہ یقیناً نوح نے ہمیں پکارا تو یقیناً ہم اچھے قبول کرنے والے ہیں۔
[٤٣] نوح علیہ السلام کی بددعا اور اس کی قبولیت :۔ سیدنا نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم سے سر کھپایا۔ ان کو دلائل سے سمجھایا اور مختلف پیرایوں میں سمجھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ مگر ان لوگوں نے ان کی ایک نہ مانی۔ الٹا ان کا مذاق اڑاتے اور ایذائیں پہنچاتے رہے۔ اس طویل عرصہ میں معدودے چند آدمی آپ پر ایمان لائے۔ پھر جب آپ اپنی قوم سے قطعی طور پر مایوس ہوگئے کہ اب باقی لوگوں میں سے کوئی بھی ایمان لانے والا نظر نہیں آتا اور سب میرے اور میرے ساتھیوں کے درپے آزار ہیں تو اس وقت آپ علیہ السلام نے اللہ کے حضور فریاد کی کہ یا اللہ ! مجھے ان لوگوں نے دبا لیا ہے اب تو ہی ان سے بدلہ لے اور مجھے ان ظالموں سے نجات دے۔ [٤٤] یعنی ہم نے سیدنا نوح علیہ السلام کی فریاد سنی تو ان کی فریاد رسی کردی۔ ان کی مصیبت کا ازالہ کردیا، انہیں ظالموں سے نجات دے دی۔ کیونکہ یہ بات ہمارے ذمہ ہے کہ حق و باطل کے معرکہ میں ہم ایمانداروں کی فریاد رسی کیا کرتے ہیں۔ اور انہیں ظالموں سے بچا لیتے ہیں۔