طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ
اس کے خوشے ایسے ہیں جیسے وہ شیطانوں کے سر ہوں۔
[٣٩] شیطان کے مختلف مفہوم :۔ شیطان دراصل ہر بد روح کو کہتے ہیں جو اپنی سرکشی اور نافرمانی کی بنا پر حق سے دور ہوچکا ہو۔ اور جنوں میں سے جو خبیث، موذی اور بدکردار قسم کے جن ہوں انہیں ہی شیطان کہا جاتا ہے۔ پھر اس کا اطلاق ہر ایسی صفات رکھنے والی چیز پر ہونے لگا۔ خواہ وہ جن ہو یا انسان ہو یا کوئی جانور ہو۔ اور سانپ کو اس کی ایذا ہی کی وجہ سے شیطان کہتے ہیں۔ (منجد) اور اس معنی کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ جب تم گھر میں کوئی سانپ دیکھو تو اسے مارنے سے پہلے یہ کہہ دو کہ اگر وہ کوئی جن یا شیطان ہے تو چلا جائے۔ اگر پھر بھی نہ جائے تو اسے مار ڈالو۔ (مسلم۔ باب قتل الحیات، بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔ باب قول اللّٰہ تعالیٰ و بث فیھا من کل دابۃ) گویا اس آیت میں شیطان کے سر سے مراد سانپوں کے سر یا ناگ پھن ہیں۔ اور اس پودے کے شگوفے ایسے ہی ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے یہ تشبیہ محض بدصورتی کی بنا پر ہو جیسے ہم اپنی زبان میں بعض ان دیکھی چیزوں سے تشبیہ دے دیتے ہیں۔ جیسے وہ عورت ایسی خوبصورت ہے جیسے پری یا وہ ایسی بدصورت ہے جیسے چڑیل یا بھتنی یا ڈائن۔ حالانکہ پری، چڑیل، بھتنی یا ڈائن کو کسی نے بھی دیکھا نہیں ہوتا۔