لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
تم پوری نیکی ہرگز حاصل نہیں کرو گے، یہاں تک کہ اس میں سے کچھ خرچ کرو جس سے تم محبت رکھتے ہو اور تم جو چیز بھی خرچ کرو گے تو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والاہے۔
[٨١]پسندیدہ مال خرچ کرنے کی فضیلت:۔ اگرچہ سابقہ مضمون یہود سے سے متعلق چل رہا ہے۔ تاہم اس آیت کا خطاب یہود، نصاریٰ، مسلمانوں اور سب بنی نوع انسان سے ہے اور مال سے محبت انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اس کے دل میں گھٹن سی پیدا ہونے لگتی ہے اور اگر کسی کے کہنے کہلانے پر مال خرچ کرنا ہی پڑے تو اس کا جی یہ چاہتا ہے کہ تھوڑا سا مال یا کوئی حقیر قسم کا مال دے کر چھوٹ جائے، جب کہ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ جب تم اللہ کی راہ میں ایسا مال خرچ نہ کرو گے جو تمہیں محبوب اور پسندیدہ ہے۔ اس وقت تک تم نیکی کی وسعتوں کو پا نہیں سکتے۔ اس آیت کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بہت اچھا اثر قبول کیا۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : انصار میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے سب سے زیادہ باغ تھے۔ ان میں سے بیرحاء کا باغ آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھا۔ یہ مسجد نبوی کے سامنے تھا۔ آپ اس باغ میں جایا کرتے تھے اور وہاں عمدہ اور شیریں پانی پیتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : ’’میری کل جائیداد سے بیرحاء کا باغ مجھے بہت پیارا ہے۔ میں اس باغ کو اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور اس سے ثواب اور اللہ کے ہاں ذخیرہ کی امید رکھتا ہوں، آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے استعمال کریں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بہت خوب! یہ مال تو بالآخر فنا ہونے والا ہے۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے کہ مال تو بہت نفع دینے والا ہے۔ اب تم ایسا کرو کہ اپنے غریب رشتہ داروں میں بانٹ دو۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے! بہت خوب! یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایسے ہی کرتا ہوں۔ چنانچہ یہ باغ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے اقارب اور چچا زاد بھائیوں میں بانٹ دیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر نیز کتاب الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ علی الاقارب) اور بالخصوص اس آیت کے مخاطب یہود ہیں۔ کیونکہ اس آیت سے پہلے اور بعد والی آیات میں انہیں سے خطاب کیا جارہا ہے۔ سود خوری اور حرام خوری کی وجہ سے بخل ان کی طبیعتوں میں رچ بس گیا تھا۔ مذہبی تقدس اور پہچان کے لیے انہوں نے چند ظاہری علامات کو ہی معیار بنا رکھا تھا اسی تقدس کے پردہ میں ان کی تمام تر قباحتیں چھپ جاتی تھیں۔ جن میں سے ایک قباحت بخل اور مال سے شدید محبت تھی۔