فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَم مَّنْ خَلَقْنَا ۚ إِنَّا خَلَقْنَاهُم مِّن طِينٍ لَّازِبٍ
سو ان سے پوچھ کیا یہ پیدا کرنے کے اعتبار سے زیادہ مشکل ہیں، یا وہ جنھیں ہم نے پیدا کیا ؟ بے شک ہم نے انھیں ایک چپکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے۔
[٧] مٹی کی مختلف حالتیں جن سے آدم کا پتلا بنایا گیا، ڈارون کے نظریہ کا ابطال :۔ مٹی کو جن سات مختلف حالتوں سے گزار کر انسان کو پیدا کیا گیا ان کی تفصیل یہ ہے (١) تراب بمعنی خشک مٹی (٤٠: ٦٧) (٢) ارض بمعنی عام مٹی یا زمین (٧١: ١٧) (٣) طین بمعنی گیلی مٹی یا گارا (٦: ٢) (٤) طین لازب معنی لیسدار یا چپکدار مٹی (٣٧: ١١) (٥) حماٍ مسنون بمعنی بدبودار کیچڑ (١٥: ٢٦) (٦) صلصال بمعنی ٹھیکرا یعنی حرارت سے پکائی ہوئی مٹی (١٥: ٢٦) (٧) صلصال کا لفخار بمعنی ٹن سے بجنے والی ٹھیکری (٥٥: ١٤) یہ مٹی یا زمین کی مختلف شکلیں ہیں۔ کسی وقت مٹی میں پانی کی آمیزش کی گئی تو بعد میں حرارت کے ذریعہ پانی کو خشک کردیا گیا۔ قرآن نے مختلف مقامات پر ان مختلف حالتوں میں سے کسی بھی ایک یا دو حالتوں کا ذکر کردیا ہے۔ اور جس حالت کا بھی نام لیا جائے وہ سب درست ہے۔ اس بیان سے ڈارون کا نظریہ ارتقاء کا رد ہوجاتا ہے جس کی رو سے انسان نباتات اور حیوانات کی منزلوں سے گزر کر وجود میں آیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے جو سات مختلف حالتیں بیان کی ہیں وہ سب کی سب جمادات یا مٹی میں ہی پوری ہوجاتی ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو مزید باتیں ارشاد فرمائیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ جو عظیم الجثہ اور محیرالعقول مخلوقات پیدا کرچکا ہے اس کے مقابلہ میں انسان کی حیثیت ہی کیا ہے کہ اس کی تخلیق اس کے لئے کچھ مشکل ہو اور دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی ہی کی سات مختلف حالتوں سے گزار کر پیدا کیا ہے۔ پھر وہ مر کر مٹی میں مل کر مٹی ہی بن جائے گا۔ تو کیا جس نے مٹی کی اتنی حالتوں سے گزار کر انسان کو پہلے پیدا کیا تھا اب دوبارہ مختلف حالتوں سے گزار کر پیدا نہ کرسکے گا ؟ (ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی تفصیل کے لئے دیکھئے ١٥: ٢٩، حاشیہ ١٩)