وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَن لَّوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے اس میں سے خرچ کرو جو تمھیں اللہ نے دیا ہے تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ان سے کہتے ہیں جو ایمان لائے، کیا ہم اسے کھلائیں جسے اگر اللہ چاہتا تو کھلا دیتا۔ نہیں ہو تم مگر واضح گمراہی میں۔
[ ٤٦] مشیت کا سہارا اس وقت لیا جاتا ہے جب جرم اپنا ہو :۔ یہ ہے ان کج بحث اور ہٹ دھرم لوگوں کی ''خوے بدرا بہانہ بسیار''والی بات یعنی وہ خوب جانتے ہیں کہ غریبوں کی مدد کرنا بڑا اچھا اور نیک کام ہے۔ امیری ہو یا غریبی اللہ ہر حال میں سب کی آزمائش کرتا ہے۔ امیروں کی اس طرح کہ وہ غریبوں کو کچھ دیتے ہیں یا نہیں اور غریبوں کی اس طرح کہ وہ اس حال میں صبر اور اللہ کا شکر کرتے ہیں یا نہیں۔ اصل مشیت تو اللہ کی یہ ہے کہ کسی کو امیر اور کسی کو غریب بنا کر دونوں کی آزمائش کرے جبکہ ان لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو انہیں خود ہی اپنے پاس سے دے دیتا۔ اور ان کی واضح گمراہی یا ان کا یہ استدلال باطل اسی لحاظ سے ہے کہ مشیئت الٰہی کا سہارا اس وقت لیتے ہیں جب یہ خود مجرم ہوں اور جب کوئی دوسرا مجرم ہو اور ان کی حق تلفی ہو رہی ہو تو کبھی مشیئت الٰہی کا سہارا نہ لیں گے۔ مثلاً اگر کوئی ڈاکو ان سے مال چھین لے جائے تو اس وقت اس کے خلاف پوری چارہ جوئی کریں گے اور اس وقت کبھی نہ کہیں گے کہ ڈاکو کا کوئی قصور نہیں یا ہمیں سب کچھ برداشت کرلینا چاہئے کیونکہ اللہ کی مشیئت یہی تھی۔ واضح رہے کہ یہ مطلب اس لحاظ سے ہوگا جب﴿ إنْ أنْتُمْ الاَّ فِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ﴾ کو اللہ کا فرمان سمجھا جائے۔ اور اگر اس جملہ کو صدقہ نہ دینے والے کافروں کا کلام سمجھا جائے اور اس کے مخاطب مسلمان ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلمانو! تمہاری گمراہی بڑی واضح ہے کہ جن لوگوں کا اللہ پیٹ بھرنا نہیں چاہتا تم ایسے لوگوں کا پیٹ بھرنا چاہتے ہو۔