وَآيَةٌ لَّهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُم مُّظْلِمُونَ
اور ایک نشانی ان کے لیے رات ہے، ہم اس پر سے دن کو کھینچ اتارتے ہیں تو اچانک وہ اندھیرے میں رہ جانے والے ہوتے ہیں۔
[ ٣٥] رات کا ذکر دن سے پہلے اور فطری تقویم :۔ قرآن کریم نے جب دن اور رات کا ذکر فرمایا تو پہلے رات کا ذکر فرمایا۔ اس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے کہ ایک یہ کہ فطری تقویم یہ ہے کہ دن رات کی (یعنی ایک دن یا ٢٤ گھنٹے) کی مدت کا شمار ایک دن سورج غروب ہونے سے لے کر دوسرے دن سورج غروب ہونے تک ہے۔ اور یہ مدت ہمیشہ ٢٤ گھنٹے ہی رہتی ہے خواہ گرمیوں کا موسم ہو یا سردیوں کا اور اس میں ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہیں پڑتا اور دوسرے یہ کہ اصل چیز رات اور تاریکی ہی تھی یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لئے سورج پیدا فرما کر روشنی کا بھی انتظام فرما دیا۔ اور اس میں تمہارے لئے اور بھی بے شمار فائدے رکھ دیئے۔ حتیٰ کہ اگر اللہ تعالیٰ رات اور دن کا یہ انتظام نہ فرماتے تو اس زمین پر نہ کوئی نباتات اگ سکتی تھی اور نہ ہی کوئی جاندار زندہ رہ سکتا تھا۔