سورة يس - آیت 18

قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

انھوں نے کہا بے شک ہم نے تمھیں منحوس پایا ہے، یقیناً اگر تم باز نہ آئے تو ہم ضرور ہی تمھیں سنگسار کردیں گے اور تمھیں ہماری طرف سے ضرور ہی دردناک عذاب پہنچے گا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ١٨] انبیاء کی دعوت پر کافروں کو کیا مصیبت پڑتی ہے؟ منکرین حق کو جھنجھوڑنے کے لئے ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ چھوٹے موٹے عذاب یا سختیاں بطور تنبیہ نازل ہوا کرتی ہیں۔ اور اگر ایسا کوئی عذاب نہ بھی آئے تو بھی ایک بات کا وقوع پذیر ہونا یقینی ہے۔ نبی جب دعوت دیتا ہے تو کچھ اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور کچھ اس کی مخالفت پر اتر آتے ہیں۔ اس طرح دو فریق بن جاتے ہیں جن کی آپس میں ٹھن جاتی ہے۔ ایک آدمی اگر ایماندار ہے تو اس کے رشتہ دار کافر ہوتے ہیں۔ منکرین حق کے لئے یہ ایک الگ مصیبت بن جاتی ہے۔ بہرحال عذاب کی صورت ہو یا ایسی تفریق کی، منکرین حق اس کا الزام رسولوں پر دھرتے اور کہتے تھے کہ جب سے تم آئے ہو ہمیں یہ مصیبت پڑگئی ہے اور یہ تمہاری ہی نحوست کا نتیجہ ہے۔ ورنہ پہلے سب مل جل کر اچھے خاصے آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ [ ١٩] کافر قوم کی دھمکی :۔ ان لوگوں نے اپنے رسولوں کو محض ایسی دھمکی ہی دی تھی جب کہ کفار مکہ نے کئی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی جان سے مار ڈالنے کی کوششیں اور سازشیں کی تھیں۔