لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أُنذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ
تاکہ تو اس قوم کو ڈرائے جن کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے، تو وہ بے خبر ہیں۔
[ ٥] مکہ میں شعیب علیہ السلام کے دو ہزار سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے :۔ اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ مَااُنْذِرَمیں اگر ما کو نافیہ سمجھا جائے جیسا کہ اس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ چونکہ ان کی طرف کوئی نبی نہیں آیا لہٰذا یہ لوگ گہری غفلت اور جہالت میں پڑے ہوئے ہیں اور اگر ما کو موصولہ سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے قدیمی آباء و اجداد مدتوں پہلے جس چیز سے ڈرائے گئے تھے اسی چیز سے آپ ان کو ڈرائیں۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ، سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام اور سیدنا شعیب علیہ السلام انہی کے آباء و اجداد کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور آخری نبی شعیب علیہ السلام تھے انہیں بھی دو ہزار سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور اتنی مدت بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب کی حالت :۔ اور یہ اس طویل مدت کا ہی اثر تھا کہ یہ لوگ انتہائی جہالت اور غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کے عادات و خصائل سخت بگڑ چکے تھے۔ شرک اس قدر عام تھا کہ کعبہ کے اندر تین سو ساٹھ بت موجود تھے اور ہر قبیلہ کا الگ الگ بت بھی موجود تھا۔ ان میں اکثر لوگوں کا پیشہ لوٹ مار اور رہزنی تھا۔ شراب کے سخت رسیا تھے۔ فحاشی اور بے حیائی عام تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے کھڑے کردینا ان کا معمول تھا۔ پھر ان کے قبائلی نظام کی وجہ سے قبیلوں میں ایسی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا جو ختم ہونے میں آتا ہی نہ تھا۔ غرض ہر لحاظ سے یہ قوم ایک اجڈ، تہذیب سے ناآشنا اور ایک ناتراشیدہ اور اکھڑ قوم تھی جس کی اصلاح و ہدایت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ اسی صورت حال سے اس بات کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ذمہ داری کس قدر سخت اور عظیم تھی۔