وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِن جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَىٰ مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَّا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا
اور انھوں نے اپنی پختہ قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی کہ واقعی اگر کوئی ڈرانے والا ان کے پاس آیا تو ضرور بالضرور وہ امتوں میں سے کسی بھی امت سے زیادہ ہدایت پانے والے ہوں گے، پھر جب ان کے پاس ایک ڈرانے والا آیا تو اس نے ان کو دور بھاگنے کے سوا کچھ زیادہ نہیں کیا۔
[ ٤٨] مشرکین مکہ کا یہ قول کہ اگر نبی ہم میں آتا تو ہم تم سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کفار مکہ جب یہود و نصاریٰ کی بگڑی ہوئی اخلاقی حالت کو دیکھتے تھے تو ان سے بڑھ چڑھ کر باتیں بناتے اور قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اگر ہمارے پاس بھی کوئی پیغمبر آیا ہوتا جو ہماری رہنمائی کرتا تو ہم یقینا ً ہر لحاظ سے تم سے بہتر ہوتے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان میں اپنا نبی مبعوث فرما دیا اور انہیں یہ معلوم ہوا کہ اب انہیں اپنی اپنی سرداریوں اور چودھراہٹوں سے دستبردار ہو کر اس نبی کا مطیع فرمان بن کر رہنا پڑے گا تو اکڑ بیٹھے۔ انہیں یہود و نصاریٰ کے سامنے کئے ہوئے قول و قرار بھول بھلا گئے۔ اور اپنی سرداریوں اور چودھراہٹوں کو تحفظ دینے کی خاطر الٹا نبی کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور برابر ایسی کوششوں میں لگ گئے کہ اس ڈرانے والے نبی اور اس کے متبعین پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ پھر اس سلسلہ میں انہوں نے ظاہری مخالفت کے علاوہ خفیہ سازشوں کے بھی کئی جال پھیلائے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور اپنے ایمانداروں کی مدد پر تھا۔ لہٰذا جو چال بھی وہ چلتے انہی پر الٹی پڑتی تھی۔ جس کے نتیجہ میں وہ خود ہی ذلیل و رسوا ہوتے رہے اور ان کی ہزار مخالفتوں کے باوجود اسلام کو غلبہ اور سربلندی حاصل ہوتی گئی۔ اور جوں جوں اسلام کو سربلندی ہوتی تو وہ اپنے بغض، نفرت اور عناد کی وجہ سے اور زیادہ چڑ جاتے تھے۔