قُلْ أَرَأَيْتُمْ شُرَكَاءَكُمُ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا فَهُمْ عَلَىٰ بَيِّنَتٍ مِّنْهُ ۚ بَلْ إِن يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُم بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا
کہہ دے کیا تم نے اپنے شریکوں کو دیکھا، جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو؟ مجھے دکھاؤ زمین میں سے انھوں نے کون سی چیز پیدا کی ہے، یا آسمانوں میں ان کا کوئی حصہ ہے، یا ہم نے انھیں کوئی کتاب دی ہے کہ وہ اس کی کسی دلیل پر قائم ہیں؟ بلکہ ظالم لوگ، ان کے بعض بعض کو دھوکے کے سوا کچھ وعدہ نہیں دیتے۔
[ ٤٤] شریکوں کے جواز کی ممکنہ بنیادیں؟ یعنی تم لوگوں نے اپنے جن معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے اختیارات و تصرفات میں اللہ کا شریک بنا رکھا ہے اس کی بنیاد کیا ہے؟ ایک بنیاد تو یہ ہوسکتی ہے کہ کائنات کا کوئی دسواں بیسواں حصہ انہوں نے بھی بنایا ہو۔ دوسری بنیاد یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے کائنات کا الگ تو کوئی حصہ نہیں بنایا، البتہ جب اللہ تعالیٰ کائنات پیدا کر رہا تھا تو اس وقت تمہارے ان معبودوں نے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بٹایا ہو اس طرح اختیارات و تصرفات میں ان کا بھی کچھ حق بن سکتا ہے۔ تیسری بنیاد یہ بھی بن سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی انہیں کوئی مختار نامہ لکھ دیا ہو کہ فلاں علاقہ کے لوگ، فلاں آستانے یا فلاں بزرگ کے پاس اپنی درخواستیں پیش کیا کریں اور انہیں پکارا کریں اور انہی کے حضور نذریں نیازیں چڑھایا کریں۔ یا فلاں فلاں ہستیوں کو ہم نے فلاں فلاں بیماری سے تندرست کرنے کے اختیار دے رکھے ہیں اور انگر بیروز گاروں کو روزگار دلوانا ہو تو فلاں بزرگ کے پاس جانا چاہئے۔ وہ آپ کی حاجات کو پورا کرسکتے ہیں۔ اور بگڑی بنا بھی سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ اگر ہم نے کوئی ایسی سند کسی آسمانی کتاب میں لکھی ہے تو وہ دکھا دو۔ اور اگر ان تینوں باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے تو پھر کیا تم خود اللہ تعالیٰ کے اختیار و تصرف کے اجارہ دار بن بیٹھے ہو۔ اور اپنی طرف سے ہی ان اختیارات میں اپنے اپنے معبودوں اور پیروں فقیروں کے حصے کر لئے ہیں۔ [ ٤٥] شرک کی اصل بنیاد بت پرستی ہے :۔ بات یوں نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ پروہت اور گورو اور ان کے چیلے یا یہ بزرگ پیر فقیر اور ان کے مرید ان باصفا اور قبروں کے مجاور سب مل کر اپنے مفادات دنیوی کی خاطر عوام الناس کو بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں۔ یہ اپنی اپنی دکانیں چمکانے کے لئے طرح طرح کے افسانے اور قصے گھڑتے ہیں پھر ان کا خوب پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ فلاں صاحب بڑے پہنچے ہوئے ہیں۔ ان کا دامن پکڑ لیا جائے تو وہ اپنے مریدوں کی سفارش کرکے اللہ سے بخشوا کے چھوڑیں گے۔ فلاں صاحب کی تقدیر میں کوئی اولاد نہ تھی مگر فلاں بزرگ نے اللہ سے اصرار کرکے اسے سات بیٹے دلوا دیئے۔ اور فلاں صاحب نے فلاں قبر پر جاکر فلاں حرکت کی تھی تو چند ہی دنوں میں وہ تباہ و برباد ہوگیا۔ ان کی دکانیں محض جھوٹ اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر چل رہی ہیں۔ اور اس سے ان کے دنیوی مفادات وابستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیارات و تصرفات کسی بندے کو ہرگز تفویض نہیں کئے۔